Farhat Ehsas

فرحت احساس

ممتاز ما بعد جدید شاعروں میں نمایاں

Prominent post modern poet.

فرحت احساس کی غزل

    میں رونا چاہتا ہوں خوب رونا چاہتا ہوں میں

    میں رونا چاہتا ہوں خوب رونا چاہتا ہوں میں اور اس کے بعد گہری نیند سونا چاہتا ہوں میں ترے ہونٹوں کے صحرا میں تری آنکھوں کے جنگل میں جو اب تک پا چکا ہوں اس کو کھونا چاہتا ہوں میں یہ کچی مٹیوں کا ڈھیر اپنے چاک پر رکھ لے تری رفتار کا ہم رقص ہونا چاہتا ہوں میں ترا ساحل نظر آنے سے ...

    مزید پڑھیے

    اک بھول سی ضرور کہیں کر رہے ہیں ہم

    اک بھول سی ضرور کہیں کر رہے ہیں ہم کوئی ضروری کام نہیں کر رہے ہیں ہم چوما ہے جن لبوں ہزار ان کے خون معاف تو جھوٹ خوب بول یقیں کر رہے ہیں ہم باہر سے مر گئے ہیں کہ مارے نہ جا سکیں جینے کا کام زیر زمیں کر رہے ہیں ہم

    مزید پڑھیے

    اس کو ہے عشق بتانا بھی نہیں چاہتا ہے

    اس کو ہے عشق بتانا بھی نہیں چاہتا ہے اور یہ بات چھپانا بھی نہیں چاہتا ہے سوچتا رہتا ہے دن بھر کہ مری رات میں آئے اپنے دن کو یہ جتانا بھی نہیں چاہتا ہے شاعری کو مرا اظہار سمجھتا ہے مگر پردۂ شعر اٹھانا بھی نہیں چاہتا ہے سائے کو جستجوئے جسم بہت ہے پھر بھی پہلوئے جسم میں آنا بھی ...

    مزید پڑھیے

    تو مجھ کو جو اس شہر میں لایا نہیں ہوتا

    تو مجھ کو جو اس شہر میں لایا نہیں ہوتا میں بے سر و ساماں کبھی رسوا نہیں ہوتا اس کی تو یہ عادت ہے کسی کا نہیں ہوتا پھر اس میں عجب کیا کہ ہمارا نہیں ہوتا کچھ پیڑ بھی بے فیض ہیں اس راہ گزر کے کچھ دھوپ بھی ایسی ہے کہ سایا نہیں ہوتا خوابوں میں جو اک شہر بنا دیتا ہے مجھ کو جب آنکھ کھلی ...

    مزید پڑھیے

    ہر گلی کوچے میں رونے کی صدا میری ہے

    ہر گلی کوچے میں رونے کی صدا میری ہے شہر میں جو بھی ہوا ہے وہ خطا میری ہے یہ جو ہے خاک کا اک ڈھیر بدن ہے میرا وہ جو اڑتی ہوئی پھرتی ہے قبا میری ہے وہ جو اک شور سا برپا ہے عمل ہے میرا یہ جو تنہائی برستی ہے سزا میری ہے میں نہ چاہوں تو نہ کھل پائے کہیں ایک بھی پھول باغ تیرا ہے مگر باد ...

    مزید پڑھیے

    کس سلیقے سے وہ مجھ میں رات بھر رہ کر گیا

    کس سلیقے سے وہ مجھ میں رات بھر رہ کر گیا شام کو بستر سا کھولا صبح کو تہہ کر گیا وقت رخصت تھا ہمارے باہر اندر اتنا شور کچھ کہا تھا اس نے لیکن جانے کیا کہہ کر گیا قتل ہوتے سب نے دیکھا تھا بھرے بازار میں یہ نہ دیکھا خوں مرا کس کی طرف بہہ کر گیا ڈوبنا ہی تھا سو ڈوبا چاند اس کے وصل ...

    مزید پڑھیے

    آخر اس کے حسن کی مشکل کو حل میں نے کیا

    آخر اس کے حسن کی مشکل کو حل میں نے کیا ایک نثری نظم تھی جس کو غزل میں نے کیا کیا بلاغت آ گئی اس کے بدن کے متن میں چند لفظوں کا جو کچھ رد و بدل میں نے کیا باعث توہین ہے دل کے لیے تکرار جسم آج پھر کیسے کروں وہ سب جو کل میں نے کیا بزم ہو بازار ہو ساری نگاہیں مجھ پہ ہیں کیا ان آنکھوں کے ...

    مزید پڑھیے

    دیکھتے ہی دیکھتے کھونے سے پہلے دیکھتے

    دیکھتے ہی دیکھتے کھونے سے پہلے دیکھتے روشنی کو روشنی ہونے سے پہلے دیکھتے اس طرح ضائع ہوئی ہوتیں نہ آنکھیں نیند میں ہم یہ سارے خواب اگر سونے سے پہلے دیکھتے شہر کا آئینہ خانہ ہے سر سیلاب عکس اپنا چہرہ بھیڑ میں کھونے سے پہلے دیکھتے بعد کا سارا سفر قابو میں رہتا آپ کے خاک کو گر بے ...

    مزید پڑھیے

    راہ کی کچھ تو رکاوٹ یار کم کر دیجیے

    راہ کی کچھ تو رکاوٹ یار کم کر دیجیے آپ اپنے گھر کی اک دیوار کم کر دیجیے آپ کا عاشق بہت کمزور دل کا ہے حضور دیکھیے یہ شدت انکار کم کر دیجیے میں بھی ہونٹوں سے کہوں گا کم کریں جلنے کا شوق آپ اگر سرگرمیٔ رخسار کم کر دیجیے ایک تو شرم آپ کی اور اس پہ تکیہ درمیاں دونوں دیواروں میں اک ...

    مزید پڑھیے

    پیکر عقل ترے ہوش ٹھکانے لگ جائیں

    پیکر عقل ترے ہوش ٹھکانے لگ جائیں تیرے پیچھے بھی جو ہم جیسے دوانے لگ جائیں اس کا منصوبہ یہ لگتا ہے گلی میں اس کی ہم یوں ہی خاک اڑانے میں ٹھکانے لگ جائیں سوچ کس کام کی رہ جائے گی تیری یہ بہار اپنے اندر ہی اگر ہم تجھے پانے لگ جائیں سب کے جیسی نہ بنا زلف کہ ہم سادہ نگاہ تیرے دھوکے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 5