Farhat Ehsas

فرحت احساس

ممتاز ما بعد جدید شاعروں میں نمایاں

Prominent post modern poet.

فرحت احساس کی غزل

    بادل اس بار جو اس شہر پہ چھائے ہوئے ہیں

    بادل اس بار جو اس شہر پہ چھائے ہوئے ہیں سب مرے دیدۂ نمناک کے لائے ہوئے ہیں راستے میں نظر آتے ہیں نہ پہنچے ہیں کہیں ہم کسی بیچ کے منظر کے لبھائے ہوئے ہیں بدن یار یہ سب رنگ ترے اپنے ہیں یا کسی دست محبت کے لگائے ہوئے ہیں کتنے سمجھوتے ہواؤں سے کیے بیٹھے ہیں جو سر راہ چراغ اپنے جلائے ...

    مزید پڑھیے

    جو عشق چاہتا ہے وہ ہونا نہیں ہے آج

    جو عشق چاہتا ہے وہ ہونا نہیں ہے آج خود کو بحال کرنا ہے کھونا نہیں ہے آج آنکھوں نے دیکھتے ہی اسے غل مچا دیا طے تو یہی ہوا تھا کہ رونا نہیں ہے آج یہ رات اہل ہجر کے خوابوں کی رات ہے قصہ تمام کرنا ہے سونا نہیں ہے آج جو اپنے گھر میں ہے وہ ہے بازار میں نہیں ہونا کسی کا شہر میں ہونا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    محبت کا صلہ کار محبت سے نہیں ملتا

    محبت کا صلہ کار محبت سے نہیں ملتا جو افسانے سے ملتا ہے حقیقت سے نہیں ملتا میں اس کو اس کے باہر دیکھتا ہوں سخت مشکل میں کوئی بھی عکس اس کا اصل صورت سے نہیں ملتا ملاقات اس سے اب تو بالا بالا بھی نہیں ممکن چھتوں کا سلسلہ ایک اس کی ہی چھت سے نہیں ملتا کہاں سے لائیں عشق اتنا کہ اس تک ...

    مزید پڑھیے

    بظاہر تو بدن بھر کا علاقہ گھیر رکھا ہے

    بظاہر تو بدن بھر کا علاقہ گھیر رکھا ہے مگر اندر سے ہم نے شہر سارا گھیر رکھا ہے میں پسپا فوج دل کا آخری زخمی سپاہی ہوں مگر اک عمر سے دشمن کو تنہا گھیر رکھا ہے کبھی اس روشنی کی قید سے باہر بھی نکلو تم ہجوم حسن نے سارہ سراپا گھیر رکھا ہے مصیبت میں پڑا ہے ان دنوں میرا دل وحشی سمجھ کر ...

    مزید پڑھیے

    خاک ہے میرا بدن خاک ہی اس کا ہوگا

    خاک ہے میرا بدن خاک ہی اس کا ہوگا دونوں مل جائیں تو کیا زور کا صحرا ہوگا پھر مرا جسم مری جاں سے جدا ہے دیکھو تم نے ٹانکا جو لگایا تھا وہ کچا ہوگا تم کو رونے سے بہت صاف ہوئی ہیں آنکھیں جو بھی اب سامنے آئے گا وہ اچھا ہوگا روز یہ سوچ کے سوتا ہوں کہ اس رات کے بعد اب اگر آنکھ کھلے گی تو ...

    مزید پڑھیے

    جسم کی قید سے سب رنگ تمہارے نکل آئے

    جسم کی قید سے سب رنگ تمہارے نکل آئے میری دستک سے تو تم اور بھی پیارے نکل آئے اس کے پانی نے دیا حکم تو ہم ڈوب گئے اس کی مٹی نے پکارا تو کنارے نکل آئے عشق پہنچا جو مرے جسم کے دروازے پر خیر مقدم کے لیے خون کے دھارے نکل آئے اس کی آنکھوں نے یقیں کچھ نہ دلایا پھر بھی شعر کہنے کے لیے کچھ ...

    مزید پڑھیے

    ٹھوکریں کھا کے سنبھلنا نہیں آتا ہے مجھے

    ٹھوکریں کھا کے سنبھلنا نہیں آتا ہے مجھے چل مرے ساتھ کہ چلنا نہیں آتا ہے مجھے اپنی آنکھوں سے بہا دے کوئی میرے آنسو اپنی آنکھوں سے نکلنا نہیں آتا ہے مجھے اب تری گرمئی آغوش ہی تدبیر کرے موم ہو کر بھی پگھلنا نہیں آتا ہے مجھے شام کر دیتا ہے اکثر کوئی زلفوں والا ورنہ وہ دن ہوں کہ ...

    مزید پڑھیے

    مرے ثبوت بہے جا رہے ہیں پانی میں

    مرے ثبوت بہے جا رہے ہیں پانی میں کسے گواہ بناؤں سرائے فانی میں جو آنسوؤں میں نہاتے رہے سو پاک رہے نماز ورنہ کسے مل سکی جوانی میں بھڑک اٹھے ہیں پھر آنکھوں میں آنسوؤں کے چراغ پھر آج آگ لگا دی گئی ہے پانی میں ہمیں تھے ایسے کہاں کے کہ اپنے گھر جاتے بڑے بڑوں نے گزاری ہے بے مکانی ...

    مزید پڑھیے

    یہ سارے خوب صورت جسم ابھی مر جانے والے ہیں

    یہ سارے خوب صورت جسم ابھی مر جانے والے ہیں مگر ہم عشق والے بھی کہاں باز آنے والے ہیں حقیقت کا ہمیں کیا علم سچائی سے کیا مطلب ہمارے جتنے بھی معشوق ہیں افسانے والے ہیں ہمیں مسجد سے کیا جھگڑا مگر بس ایک مشکل ہے کہ اس کی اور کے سب راستے مے خانے والے ہیں نفی کی ثالثی درکار ہے جو ...

    مزید پڑھیے

    دنی ہیں سب کوئی راتی نہیں ہے

    دنی ہیں سب کوئی راتی نہیں ہے اندھیروں کا کوئی ساتھی نہیں ہے تو کیا بے خواب ہی رہ جاؤں گا میں مجھے تو نیند ہی آتی نہیں ہے کہ ہر بیمار ان آنکھوں سے دوا پائے شفا خانہ یہ خیراتی نہیں ہے لگا ہے کتنا سرمایہ زباں کا یہ کار شاعری ذاتی نہیں ہے تراشی جا چکی امید کی لو دیا جلتا ہوا باتی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5