ہوا کے سیال بازوؤں پر گھٹا کے شب رنگ کارواں ہیں
ہوا کے سیال بازوؤں پر گھٹا کے شب رنگ کارواں ہیں نسیم مستانہ رقص میں ہے فضا میں نشہ سا چھا رہا ہے خنک ترائی کے سنگ پارے اثر میں ڈوبے ہوئے پڑے ہیں کہ جیسے کوئی حسیں نہا کر گھنیری زلفیں سکھا رہا ہے
بیسویں صدی کی چوتھی اور پانچویں دہائیوں کے مقبول ترین شاعروں میں شامل، فیض احمد فیض کے ہم عصر
One of the most popular poets in the fourth and fifth decades of 20th century, contemporary of Faiz Ahmad Faiz.
ہوا کے سیال بازوؤں پر گھٹا کے شب رنگ کارواں ہیں نسیم مستانہ رقص میں ہے فضا میں نشہ سا چھا رہا ہے خنک ترائی کے سنگ پارے اثر میں ڈوبے ہوئے پڑے ہیں کہ جیسے کوئی حسیں نہا کر گھنیری زلفیں سکھا رہا ہے
اس طرح آتے ہیں انجام محبت کے خیال عشرتوں میں دل کی پیغام الم دیتے ہوئے جیسے کھیتوں کے کناروں پر اترتی دھوپ میں سرنگوں شاخوں کے سائے کروٹیں لیتے ہوئے
جب کوئی جگنو چمکتا ہے اندھیری رات میں اس طرح ظلمت میں لہراتی ہے نورانی لکیر جیسے ساحل پر گرجتے بادلوں کے سائے میں جنبش امواج سے نادار مے کش کا ضمیر
رات ہے برسات ہے مسجد میں روشن ہے چراغ پڑ رہی ہے روشنی بھیگی ہوئی دیوار پر جیسے اک بیوہ کے آنسو ڈوبتے سورج کے وقت تھم گئے ہوں بہتے بہتے چمپئی رخسار پر