حوض میں گر پڑا گلاب کا پھول
حوض میں گر پڑا گلاب کا پھول پاس لانے سے دور جاتا ہے جیسے مدت میں ملنے والے کا نام مشکل سے یاد آتا ہے
بیسویں صدی کی چوتھی اور پانچویں دہائیوں کے مقبول ترین شاعروں میں شامل، فیض احمد فیض کے ہم عصر
One of the most popular poets in the fourth and fifth decades of 20th century, contemporary of Faiz Ahmad Faiz.
حوض میں گر پڑا گلاب کا پھول پاس لانے سے دور جاتا ہے جیسے مدت میں ملنے والے کا نام مشکل سے یاد آتا ہے
بھورے بھورے بادلوں سے آسماں لبریز ہے اس طرح ضو پاش ہے رہ رہ کے ماہ سیم فام جیسے ساحل کی بلندی سے بھری برسات میں گدلے پانی میں حسیں مچھلی کا انداز خرام
مفلسی اور اس میں گھر پر ہم نشینوں کا ہجوم تیرگی میں یاس کی دھندلا گیا حسن امید اس طرح ہے دل پہ اک افسردگی چھائی ہوئی جس طرح پردیس میں بیکار مزدوروں کی عید
یاس میں بیداریٔ احساس کا عالم نہ پوچھ ٹھیس یوں لگتی ہے دل پہ طعنۂ ہم راز سے جس طرح سردی کی افسردہ اندھیری رات میں آنکھ کھل جاتی ہے چوکیدار کی آواز سے
رو رہا تھا گود میں اماں کی اک طفل حسیں اس طرح پلکوں پہ آنسو ہو رہے تھے بے قرار جیسے دیوالی کی شب ہلکی ہوا کے سامنے گاؤں کی نیچی منڈیروں پر چراغوں کی قطار
دوپہر میدان گرمی حبس ابر بے متاع سرنگوں ہے خار و خس پر اک گل فیروزہ فام نادم و بے مایہ محزوں مضمحل اندوہ گیں جیسے اک بے رحم و بے انصاف آقا کا غلام
آسماں پر ہیں خراماں ابر پاروں کے ہجوم اس طرح کھل کھل کے چھپتی ہے جبین آفتاب جس طرح ہمسایوں کی آمد سے ہنگام سحر گھر میں شرمیلی نئی دلہن کا انداز نقاب
جب کسی کی یاد آ کر تلملا جاتا ہے دل جگمگا اٹھتی ہے کچھ اس شان سے بزم دماغ جیسے ساون کی برستی رات میں اک نازنیں صحن میں زینے سے اترے ہاتھ میں لے کر چراغ
دوپہر ہونے کو ہے سنا گیا جنگل تمام اک کرن شاخوں سے چھن کر آ رہی ہے پھول پر جس طرح اک گاؤں کی دوشیزۂ معصوم پر شہر کے بے غیرت و بے مہر انساں کی نظر
گرمیاں حبس رات تاریکی اک دیا دور ٹمٹماتا ہے جیسے اک پرخلوص انساں کا مشکلوں میں خیال آتا ہے