شام اور رستے میں ریوڑ کے گزرنے سے غبار
شام اور رستے میں ریوڑ کے گزرنے سے غبار جھٹپٹے میں ذرہ ذرہ آنکھ جھپکاتا ہوا جنگلوں میں منتظر خاموشیاں چھائی ہوئی جیسے کوئی تھم گیا ہو راگنی گاتا ہوا
بیسویں صدی کی چوتھی اور پانچویں دہائیوں کے مقبول ترین شاعروں میں شامل، فیض احمد فیض کے ہم عصر
One of the most popular poets in the fourth and fifth decades of 20th century, contemporary of Faiz Ahmad Faiz.
شام اور رستے میں ریوڑ کے گزرنے سے غبار جھٹپٹے میں ذرہ ذرہ آنکھ جھپکاتا ہوا جنگلوں میں منتظر خاموشیاں چھائی ہوئی جیسے کوئی تھم گیا ہو راگنی گاتا ہوا
مفلسی کے وقت اکثر عشرت رفتہ کی یاد یوں دکھاتی ہے جھلک آئینۂ ادراک پر دوپہر میں جس طرح دریا سے میداں کی طرف چلتے پھرتے ابر کے ٹکڑوں کا سایہ خاک پر
دہلی کا اک رئیس بہ ہنگام جاں کنی سر دھن رہا تھا چارہ گروں میں گھرا ہوا جیسے فسوں گروں کے جھمیلے میں نیم شب کھیلے سیاہ ناگ کا تازہ ڈسا ہوا
پڑھ رہی ہیں رات کی خاموشیاں افسون خواب تھم گیا ہے اک پیانو بجتے بجتے بام پر ہے مگر احساس سے موسیقیت کی چھیڑ چھاڑ دل پہ جیسے دور سے رکشے کی گھنٹی کا اثر
چوم کر اس بت کی پیشانی کو پچھتانا پڑا کھنچ گیا میرے لب لعل محبت سے عسل جس طرح عصیاں شعاروں کی سیہ کاری کے بعد کھوکھلی ثابت ہوا کرتی ہے تعمیر عمل
ہم نشیں اف اختتام بزم مے نوشی نہ پوچھ ہو رہا تھا اس طرح محسوس ہوش آنے کے بعد جس طرح دیہات کے اسٹیشنوں پر دن ڈھلے اک سکوت مضمحل گاڑی گزر جانے کے بعد
گدا ہوں مجھ کو لیکن دولت کونین حاصل ہے وہ آئیں گھر مرے تقدیر تھی ایسی کہاں میری میں ان کو دیکھ کر احسانؔ یہ محسوس کرتا ہوں کہ جیسے مل رہی ہو مجھ کو عمر رائیگاں میری
مینہ برس کر تھم گیا ہے پھٹ گئے ابر سیاہ ٹہنیاں ہل کر ہوا سے گر رہی ہیں بوندیاں جس طرح یاد وطن میں ڈوبتے سورج کے وقت قید خانے میں نئے قیدی کے اشکوں کا سماں
ریل نے سیٹی بجائی شورؔ و دامنؔ چل دیئے چھا گیا ایسا نشاط عقل پر رنج و ملال جیسے اک حساس کو پردیس میں سونے کے وقت دیس کی محبوب و نا ہموار گلیوں کا خیال
بیٹھے بیٹھے ان کی محفل یاد آ جاتی ہے جب دیکھتی ہے یہ سماں تخئیل کی اونچی نگاہ جیسے تھوڑی دیر ننھی بوندیاں پڑنے کے بعد چرخ پر خالی سمٹتے پھیلتے ابر سیاہ