کبھی کبھی جو وہ غربت کدے میں آئے ہیں
کبھی کبھی جو وہ غربت کدے میں آئے ہیں مرے بہے ہوئے آنسو جبیں پہ لائے ہیں نہ سرگزشت سفر پوچھ مختصر یہ ہے کہ اپنے نقش قدم ہم نے خود مٹائے ہیں نظر نہ توڑ سکی آنسوؤں کی چلمن کو وہ روز اگرچہ مرے آئینے میں آئے ہیں اس ایک شمع سے اترے ہیں بام و در کے لباس اس ایک لو نے بڑے پھول بن جلائے ...