Ehsan Danish

احسان دانش

بیسویں صدی کی چوتھی اور پانچویں دہائیوں کے مقبول ترین شاعروں میں شامل، فیض احمد فیض کے ہم عصر

One of the most popular poets in the fourth and fifth decades of 20th century, contemporary of Faiz Ahmad Faiz.

احسان دانش کی غزل

    عشق کب اپنے مقاصد کا نگہباں نہ ہوا

    عشق کب اپنے مقاصد کا نگہباں نہ ہوا کون سا غم ہے جو آخر غم جاناں نہ ہوا لاکھ چاہا مگر افسوس کہ آنسو نہ تھمے ضبط غم مجھ سے بقدر غم پنہاں نہ ہوا تیری عشرت ہے کہ گردوں کے دبائے نہ دبی میرا غم ہے کہ ہنسی میں بھی نمایاں نہ ہوا غم دنیا غم عقبیٰ غم ہستی غم موت کوئی غم بھی تو حریف غم جاناں ...

    مزید پڑھیے

    بچھڑ کر ان سے یوں غم میں گزاری زندگی ہم نے

    بچھڑ کر ان سے یوں غم میں گزاری زندگی ہم نے سحر تاریک دیکھی سرخ پائی چاندنی ہم نے ہمیں دعویٰ نہیں تنہا نباہی دوستی ہم نے محبت کو سنبھالا ہے کبھی تم نے کبھی ہم نے خوشی غم میں نظر آئی خوشی میں غم نظر آیا ابھی دنیا پہ ڈالی تھی نگاہ سرسری ہم نے بڑی بے چارگی نکلی بہت ہی نارسی پائی ازل ...

    مزید پڑھیے

    کچھ اس طرح سے تصور میں آ رہا ہے کوئی

    کچھ اس طرح سے تصور میں آ رہا ہے کوئی چراغ روح میں جیسے جلا رہا ہے کوئی کوئی کلیم اٹھے ورنہ انتظار کے بعد چراغ طورمحبت بجھا رہا ہے کوئی وہ دیر کا تھا کہ کعبے کا یہ نہیں معلوم مری خودی کا محافظ خدا رہا ہے کوئی جو روکنا ہو تو آ بڑھ کے روک لے ورنہ ترے حدود تغافل سے جا رہا ہے ...

    مزید پڑھیے

    نظر فریب قضا کھا گئی تو کیا ہوگا

    نظر فریب قضا کھا گئی تو کیا ہوگا حیات موت سے ٹکرا گئی تو کیا ہوگا بزعم ہوش تجلی کی جستجو بے سود جنوں کی زد پہ خرد آ گئی تو کیا ہوگا نئی سحر کے بہت لوگ منتظر ہیں مگر نئی سحر بھی جو کجلا گئی تو کیا ہوگا نہ رہنماؤں کی مجلس میں لے چلو مجھ کو میں بے ادب ہوں ہنسی آ گئی تو کیا ہوگا شباب ...

    مزید پڑھیے

    میں عوام میں ہوں لیکن نہیں خوئے عامیانہ

    میں عوام میں ہوں لیکن نہیں خوئے عامیانہ نہ عمل خوشامدانہ نہ سخن خوشامدانہ تری اور زندگی ہے مری اور زندگی ہے میں بلندیوں کا جویا تو اسیر آشیانہ مجھے راس ہی نہ آئی کبھی ناقصوں کی صحبت مرے جسم ناتواں میں نہیں روح تاجرانہ مرے خضر کے قدم ہیں مجھے مشعل منازل مرے دیدۂ طلب میں ہے ...

    مزید پڑھیے

    آج بھڑکی رگ وحشت ترے دیوانوں کی

    آج بھڑکی رگ وحشت ترے دیوانوں کی قسمتیں جاگنے والی ہیں بیابانوں کی پھر گھٹاؤں میں ہے نقارۂ وحشت کی صدا ٹولیاں بندھ کے چلیں دشت کو دیوانوں کی آج کیا سوجھ رہی ہے ترے دیوانوں کو دھجیاں ڈھونڈھتے پھرتے ہیں گریبانوں کی روح مجنوں ابھی بیتاب ہے صحراؤں میں خاک بے وجہ نہیں اڑتی ...

    مزید پڑھیے

    بنا دیں گی دنیا کو اک دن شرابی

    بنا دیں گی دنیا کو اک دن شرابی یہ بد مست آنکھیں یہ ڈورے گلابی ہیں قصر محبت کے معمار دونوں نگاہوں کا دھوکا دلوں کی خرابی یہ کفر مجسم یہ زہد سراپا یہ گنجان گیسو یہ روئے کتابی ہر اک شے میں تم مسکراتے ہو گویا ہزاروں حجابوں میں یہ بے حجابی ابھی تک نگاہوں پہ چھائی ہوئی ہے وہ مستی ...

    مزید پڑھیے

    سوز جنوں کو دل کی غذا کر دیا گیا

    سوز جنوں کو دل کی غذا کر دیا گیا اک زہر جاں طلب کو دوا کر دیا گیا ناسور بھر سکے نہ فغاں ضبط ہو سکی جب نے کو نیستاں سے جدا کر دیا گیا اہل وفا میں موت کی تلخی کو سر بسر قنداب زندگی سے سوا کر دیا گیا ازبر کرا دیا ہے خزاں کو نصاب گل صرصر کو درس دے کے صبا کر دیا گیا سورج سے رنگ رنگ کی ...

    مزید پڑھیے

    رعنائی کونین سے بے زار ہمیں تھے

    رعنائی کونین سے بے زار ہمیں تھے ہم تھے ترے جلووں کے طلب گار ہمیں تھے ہے فرق طلب گار و پرستار میں اے دوست دنیا تھی طلب گار پرستار ہمیں تھے اس بندہ نوازی کے تصدق سر محشر گویا تری رحمت کے سزاوار ہمیں تھے دے دے کے نگاہوں کو تصور کا سہارا راتوں کو ترے واسطے بیدار ہمیں تھے بازار ازل ...

    مزید پڑھیے

    کہاں محفل میں مجھ تک بادۂ گلفام آتا ہے

    کہاں محفل میں مجھ تک بادۂ گلفام آتا ہے جو میرا نام آتا ہے تو خالی جام آتا ہے نہ آؤ تم تو پھر کیوں ہچکیوں پر ہچکیاں آئیں انہیں روکو یہ کیوں پیغام پر پیغام آتا ہے یہ ساون یہ گھٹا یہ بجلیاں یہ ٹوٹتی راتیں بھلا ایسے میں دل والوں کو کب آرام آتا ہے ادب اے جذبۂ بیباک یہ آہ و فغاں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5