ادب کو جنس بازاری نہ کرنا
ادب کو جنس بازاری نہ کرنا غزل کے ساتھ بدکاری نہ کرنا
مشہور اور مقبول مزاح نگار
Renowned Urdu poet of humour and satire.
ادب کو جنس بازاری نہ کرنا غزل کے ساتھ بدکاری نہ کرنا
کل چودھویں کی رات تھی آباد تھا کمرا ترا ہوتی رہی دن تاک دن بجتا رہا طبلہ ترا شوہر شناسا آشنا ہمسایہ عاشق نامہ بر حاضر تھا تیری بزم میں ہر چاہنے والا ترا عاشق ہیں جتنے دیدہ ور تو سب کا منظور نظر نتھا ترا فجا ترا ایرا ترا غیرا ترا اک شخص آیا بزم میں جیسے سپاہی رزم میں کچھ نے کہا ...
ذلیل ہو کے تو جنت سے میں نہیں آیا خدا نے بھیجا ہے ذلت سے میں نہیں آیا میں اس علاقہ سے آیا ہوں ہے جو مردم خیز دلائی لامہ کے تبت سے میں نہیں آیا مشاعرہ میں سنوں کیسے صبح تک غزلیں کہ گھر کو چھوڑ کے فرصت سے میں نہیں آیا اک اسپتال میں آیا کوئی یہ کہتی تھی خدا کا شکر ہے صورت سے میں نہیں ...
غالبؔ شکن ہزار ہیں صرف اک یگانہ کیا اس کا مگر بگاڑ سکا ہے زمانہ کیا جو نان میٹرک تھے وہ افسر بنے یہاں اب جو پی ایچ ڈی ہیں وہ بیچیں کرانا کیا مجھ سے یہ پوچھتی ہے مرے دل کی مالکن تم پر مرے حقوق نہیں مالکانہ کیا میرا کلام سن کے اک استاد نے کہا بیٹے غزل یہ تو نے کہی والدانہ کیا! با ...
عورت کو چاہئے کہ عدالت کا رخ کرے جب آدمی کو صرف خدا کا خیال ہو
بہت دنوں میں کوئی کام کی خبر آئی کہیں تو شہر میں انسانیت نظر آئی بڑا وسیع خلا اس خبر نے پاٹا ہے کہ آدمی نے کسی آدمی کو کاٹا ہے گئے وہ دن کہ جب انسان سگ گزیدہ تھا لہو لہو تھا بدن پیرہن دریدہ تھا ہمارے دور میں ظالم ستم رسیدہ ہے کہ آدمی ہی یہاں آدمی گزیدہ ہے عجیب دور ہے کتا تو رحم ...
بس میں لٹک رہا تھا کوئی ہار کی طرح کوئی پڑا تھا سایۂ دیوار کی طرح سہما ہوا تھا کوئی گناہ گار کی طرح کوئی پھنسا تھا مرغ گرفتار کی طرح محروم ہو گیا تھا کوئی ایک پاؤں سے جوتا بدل گیا تھا کسی کا کھڑاؤں سے کوئی پکارتا تھا مری جیب کٹ گئی کہتا تھا کوئی میری نئی پینٹ پھٹ گئی بس میں تمام ...
سیاہ زلف کو جو بن سنور کے دیکھتے ہیں سفید بال کہاں اپنے سر کے دیکھتے ہیں سنا ہے فیس ہے کچھ اس سے بات کرنے کی یہ فیس کیا ہے ابھی بات کر کے دیکھتے ہیں سنا ہے لوگ سیہ فام مہ جبینوں کو لگا کے دھوپ میں چشمے نظر کے دیکھتے ہیں سنا ہے جیب میں مفلس بھی مال رکھتے ہیں سو مفلسوں کی بھی جیبیں ...
کہیں گولی لکھا ہے اور کہیں مار یہ گولی مار لکھا جا رہا ہے
اسٹیج پر پڑا تھا جو پردہ وہ اٹھ چکا جو عقل پر پڑا ہے وہ پردہ اٹھائیے