جاں دینے کو پہنچے تھے سبھی تیری گلی میں
جاں دینے کو پہنچے تھے سبھی تیری گلی میں بھاگے تو کسی نے بھی پلٹ کر نہیں دیکھا
مشہور اور مقبول مزاح نگار
Renowned Urdu poet of humour and satire.
جاں دینے کو پہنچے تھے سبھی تیری گلی میں بھاگے تو کسی نے بھی پلٹ کر نہیں دیکھا
صاحب یہ چاہتے ہیں میں ہر حکم پر کہوں بہتر درست خوب مناسب بجا ابھی
شور سے بچوں کے گھبراتے ہیں گھر پر اور ہم ورنہ خود ہی سوچئے صاحب کہ دفتر اور ہم تو تو گھر میں سو رہا ہے یار تجھ کو کیا خبر گیٹ پر زخمی پڑے ہیں گیٹ کیپر اور ہم ہے جگہ دل میں تو اک گھر میں گزارا کرتے ہیں آٹھ بچے ایک بیگم چار شوہر اور ہم گھر کی تہذیب اور ہے دفتر کا کلچر اور ہے گھر کے ...
ایک سرخی چور نے گھر کا صفایا کر دیا گھر جو اپنا تھا اسے بالکل پرایا کر دیا گھر کے کپڑے روپیہ پیسہ اور طلائی زیورات لے گیا ہے چور یہ ساماں بوقت واردات یہ جو فرمایا کہ غائب ہو گئے ہیں زیورات اس کا یہ مطلب ہوا چوروں میں ہیں کچھ ''بیگمات'' ہے جو اس ساماں میں مجموعہ کوئی اشعار کا اس ...
کہا مجنوں سے یہ لیلیٰ کی ماں نے کہ بیٹے کیوں پڑا ہے شہر سے دور کراچی کو بنا لے گھر یہاں تو کسی بھی مل میں ہو جائے گا مزدور وہ استعفیٰ جو تو نے دے دیا تھا ابھی تک ہو نہیں پایا ہے منظور نہیں تعلیم کی بھی شرط کوئی کہ اب بدلے ہوئے ہیں سارے دستور بس اتنی آرزو ہے آج میری سیاست میں ترا حصہ ...
کسی سے خواب میں اقبالؔ نے یہ فرمایا کہ تو نے کر دیا برباد میرا سرمایہ مرا کلام گویوں کو سونپنے والے نظر نہ آئے تجھے میرے قلب کے چھالے میں چاہتا تھا مسلمان متحد ہو جائیں یہ کب کہا تھا کہ ہم بحر منجمد ہو جائیں مری یہ شان کہ دریا بھی تھا مرا محتاج ترا یہ حال کہ ملکوں سے مانگتا ہے ...
جادۂ فن میں بڑے سخت مقام آتے ہیں مر کے رہ جاتا ہے فن کار امر ہونے تک کتنے غالب تھے جو پیدا ہوئے اور مر بھی گئے قدر دانوں کو تخلص کی خبر ہونے تک کتنے اقبال رہ فکر میں اٹھے لیکن راستہ بھول گئے ختم سفر ہونے تک کتنے شبیر حسن خاں نہ بنے جوشؔ کبھی مر گئے کتنے سکندر بھی جگر ہونے ...
ایک صاحب نے کیا ہے ریڈیو پر یہ سوال قیس اگر لیلیٰ کا بر ہوتا تو کیا ہوتا مآل ہم یہ کہتے ہیں یہ استفسار قبل از وقت ہے کیوں نہیں طے پائی شادی پہلے یہ کر لیجے طے عالموں کے مختلف اقوال ہیں اس باب میں مختلف بحثیں ہوئی ہیں حلقۂ احباب میں اک روایت یہ بھی ہے لیلیٰ سے گھبراتا تھا قیس منزل ...
لگ گئے ہیں فون لگنے میں جو پچیس سال اس خبر سے کیوں ہوا پیدا دلوں میں اشتعال آدمی اللہ کا شاکر رہے ہر حال میں بعض پودوں پر ثمر آتا ہے سو سو سال میں شکر کی جا ہے ہوئی شاخ تمنا بار آور دیر سے آیا مگر آیا تو ڈالی پر ثمر محتسب اعلیٰ کی کوشش قابل تحسین ہے فون کا لگنا کمال عدل ہے آئین ...
امریکہ شعر پڑھنے گئے تھے ہمارے دوست خود داد لے کے آ گئے سامان رہ گیا دیوان حافظؔ اتنا پڑھا ایک شخص نے خود بھی وہ ہو کے حافظ دیوان رہ گیا خوش قسمتی سے ہم ہیں سوار اس جہاز پر ساحل پہ جس جہاز کا کپتان رہ گیا ہر شخص پر ہے کفر کا فتویٰ لگا ہوا یوں ہے تو ایک میں ہی مسلمان رہ گیا