Dagh Dehlvi

داغؔ دہلوی

مقبول ترین اردو شاعروں میں سے ایک ، شاعری میں برجستگی ، شوخی اور محاوروں کے استعمال کے لئے مشہور

Last of classical poets who celebrated life and love. Famous for his playfulness of words (idioms/ phrases).

داغؔ دہلوی کی رباعی

    میں نماز پڑھ رہا تھا ، لاحول تو نہیں

    ایک روز داغؔ نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک صاحب ان سے ملنے آئے اور انہیں نماز میں مشغول دیکھ کر لوٹ گئے ۔اسی وقت داغؔ نے سلام پھیرا۔ملازم نے کہا ’’فلاں صاحب آئے تھے واپس چلے گئے ۔‘‘فرمانے لگے ۔’’دوڑ کر جا،ابھی راستے میں ہوں گے ۔‘‘ وہ بھاگا بھاگا گیا اور ان صاحب کو بلا لایا ۔داغؔ ...

    مزید پڑھیے

    ہم تو اس زمین پر تھوکتے بھی نہیں

    ایک دفعہ حبیب کنتوری صاحب کے ہاں نشست تھی جس میں مرزا داغؔ بھی شریک تھے۔ کنتوری صاحب نے غزل پڑھی جس کی زمین تھی ’’سفر سے پہلے ہجر سے پہلے ‘‘ وغیرہ ۔انہوں نے ایک شعر جس میں ’سفر ‘ کا قافیہ باندھا تھا ، بہت زور دے کر اسے پڑھا اور فرمایا کہ’’ کوئی دوسرا اگر ایسا شعر نکالے تو خون ...

    مزید پڑھیے

    داغ کیا کم ہے نشانی کا یہی یاد رہے

    ایک بار داغ دہلوی اجمیر گئے ۔ جب وہاں سے رخصت ہونے لگے تو ان کے شاگرد نواب عبداللہ خاں مطلب نے کہا: ’’استاد آپ جارہے ہیں ۔ جاتے ہوئے اپنی کوئی نشانی تو دیتے جائیے ۔ یہ سن کر داغ نے بلا تامل کہا۔ ’’داغ کیا کم ہے نشانی کا یہی یاد رہے۔‘‘

    مزید پڑھیے

    طوائف کی شعر پر اصلاح

    مرزا داغؔ کے شاگرد احسن مارہروی اپنی غزل پر اصلاح کے لیے ان کے پاس حاضر ہوئے ۔ اس وقت مرزا صاحب کے پاس دو تین دوستوں کے علاوہ ان کی ملازمہ صاحب جان بھی موجود تھی۔ جب احسنؔ نے شعر پڑھا۔ کسی دن جا پڑے تھے بیخودی میں ان کے سینے پر بس اتنی سی خطا پر ہاتھ کچلے میرے پتھر سے اس پر صاحب جان ...

    مزید پڑھیے

    آپ شعر کہتے نہیں ، شعر جنتے ہیں

    بشیرؔ رامپوری حضرت داغؔ دہلوی سے ملاقات کے لیے پہنچے تو وہ اپنے ماتحت سے گفتگو بھی کررہے تھے اور اپنے ایک شاگرد کو اپنی نئی غزل کے اشعار بھی لکھوا رہے تھے ۔ بشیر ؔ صاحب نے سخن گوئی کے اس طریقہ پر تعجب کا اظہار کیا تو داغؔ صاحب نے پوچھا ’’خاں صاحب آپ شعر کس طرح کہتے ہیں ؟ بشیرؔ ...

    مزید پڑھیے