یہ رات جدائی کی بہت روشن ہے
یہ رات جدائی کی بہت روشن ہے پھیلا ہوا یادوں کا ابھی دامن ہے اس رات بھی اشکوں کے دیے جلتے ہیں شاید مرے خوابوں کا یہیں مدفن ہے
ممتاز نقاد، اپنی بیباکی اور روایت شکنی کے لئے معروف
Radical Urdu critic who wrote unconventional poetry.
یہ رات جدائی کی بہت روشن ہے پھیلا ہوا یادوں کا ابھی دامن ہے اس رات بھی اشکوں کے دیے جلتے ہیں شاید مرے خوابوں کا یہیں مدفن ہے
خاموشی پہ الزام لگایا نہ کرو بے وجہ محبت بھی جتایا نہ کرو ہم تم سے خفا ہو کے کہاں جائیں گے تم ہم کو کسی طرح منایا نہ کرو
ہر لحظہ دھڑکتا ہے دل خانہ خراب ہر لمحہ بجاتا ہے بغاوت کا رباب جینے کی مری عمر ہے جینے دو مجھے اس دور میں جینا بھی تو ہے کار ثواب
کیوں قہر خداوند مجازی سے ڈرو آزاد رہو بندہ نوازی سے ڈرو محمود کی الفت کا زمانہ یہ نہیں ڈرنا ہے تو پھر رسم ایازی سے ڈرو
کہنے کو بہت اہل قلم آئے ہیں ہم سے مگر اس شہر میں کم آئے ہیں کیا بات ہے جچتی نہیں کوئی شے بھی کیا جانئے کیا سوچ کے ہم آئے ہیں
مے خانے میں جانے کا یہ ہنگام نہیں ہنگامہ اٹھانے کا یہ ہنگام نہیں ہاں غم کو امیدوں کا جنازہ نہ کہو اس غم کو مٹانے کا یہ ہنگام نہیں
اے روح اودھ تیری محبت کے نثار میں اور مرا فن تیری عظمت کے نثار ہاں تجھ سے بچھڑ کر نہ ملا چین مجھے ہیں خواب مرے تیری حقیقت کے نثار
سو طرح کے صدموں سے گزرنا کیسا جینا ہے تو گھٹ گھٹ کے یہ مرنا کیسا یہ لوگ کبھی ہم کو نہ جینے دیں گے لڑنا ہے زمانے سے تو ڈرنا کیسا
کیوں انجمن غیر میں فریاد کریں پھر خود کو نئی طرح سے آزاد کریں لو ٹھوکریں کھانے کا بلاوا آیا اب چل کے نئے شہر کو آباد کریں
سمجھا ہوا جب کوئی اشارا نہ ملے الفاظ کو معنی کا سہارا نہ ملے وہ ہم سے جدا ہو کے یہی کہتے ہیں طوفان کو اب کوئی کنارا نہ ملے