Baqar Mehdi

باقر مہدی

ممتاز نقاد، اپنی بیباکی اور روایت شکنی کے لئے معروف

Radical Urdu critic who wrote unconventional poetry.

باقر مہدی کی نظم

    دیمک

    خون کا ہر اک قطرہ جیسے دیمک بن کر دوڑے ناکامی کے زہر کو چاٹے درد میں گھلتا جائے چھلنی جسم سے رستے لیکن ارمانوں کے رنگ جن کا روپ میں آنا مشکل اور جب بھی الفاظ میں ڈھل کر کاغذ پر بہہ نکلے خاکے تصویروں کے بنائے آنکھیں تارے ہاتھ شعاعیں دل ایک صدف ہے جس میں کتنے سچے موتی بھرے ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    ریت اور درد

    مدتیں گزریں مرے دل کو ہوئے ویرانہ آندھیاں بھی نہیں آتیں کہ اڑے ریت مٹے نقش سراب اور اک درد کا چشمہ مندمل زخموں سے پھوٹے نئی خنکی لے کر پیاس جاگ اٹھے سکوت دل مضطر ٹوٹے تاکہ میں دیکھ سکوں اپنی بے خواب سی آنکھوں سے وہ منظر اک دن ریت کے تودے فضاؤں میں اڑے جاتے ہیں اور خوش ہو کے ...

    مزید پڑھیے

    اس نے کہا!

    سائے بڑھنے لگے اور جیسے کہیں رات ہوئی دیر تک بیٹھے رہے آنکھوں میں آنکھیں ڈالے پھر دل زار نے چپکے سے انہیں چوم لیا ہونٹ تھرائے کہ کس طرح کی یہ بات ہوئی پیاری آنکھوں نے کہا ہم تو بہت ہیں مخمور کوئی ناشاد رہے ہم تو ابھی ہیں مسرور ذہن شاعر بھی تخیل میں ذرا جھوم لیا بات اتنی ہی ہوئی ...

    مزید پڑھیے

    خوف

    سائے سائے جالے جالے خاموشی خاموشی سی ٹوٹی ٹوٹی الجھی الجھی بے خوابی بے خوابی سی حرفوں سے بچتا بچتا معنی سے چھپتا چھپتا رنگوں میں ڈوبا ڈوبا سانسوں میں ابھرا ابھرا ذروں میں چمکا چمکا لہروں میں سہما سہما تیز ہوا کے جھونکوں میں رک رک کر اڑتا اڑتا نشتر زہر محبت درد خون کے اک اک قطرے ...

    مزید پڑھیے

    الوداع

    الوداع کیسے ماہ و سال گزرے اب نہ کچھ بھی یاد ہے صرف ہیں دھندلے نقوش یا بصارت کی کمی ہے کچھ نظر آتا نہیں بس کتابوں اور فلموں میں رہی اک بصیرت کی تلاش کچھ نہ کچھ روٹی کی بھی تھی جستجو جانے کس منزل کی تھی وہ آرزو بے سبب لوگوں سے یارانہ رہا اور پھر تنہا رہا برسوں تلک سب تھے قیدی اپنے ...

    مزید پڑھیے

    جہنم

    جب پاس نہیں کچھ بھی میرے خواہش مقصد آدرش کے ٹوٹے آئینے پھر گردش روز و شب کا مجھے احساس ہے کیوں کیا غم مجھ کو جب صبح کی کوئی فکر نہیں اور شام الم سے ڈر بھی نہیں وہ پاؤں میں اب چکر بھی نہیں سائے کی کوئی حاجت بھی نہیں اب موت کا کھٹکا کوئی خلش موہوم تمنا کا ارماں کچھ بھی تو نہیں پھر ...

    مزید پڑھیے

    سزا

    بھول جانا انہیں آسان ہے اے دل تو نے پہلے بھی کئی بار قسم کھائی ہے درد جب حد سے بڑھا ضبط کا یارا نہ رہا ان کی ایک ایک ادا یاد مجھے آئی ہے وہ تبسم میں نہاں طنز کے میٹھے نشتر وہ تکلم میں تغافل کو چھپانے کی ادا رک کے ہر لمحہ نئی طرح سے آغاز ستم جیسے کچھ کھو کے کسی چیز کو پانے کی ادا میری ...

    مزید پڑھیے

    ایک لمبی گونج

    پورب دیس سے پھر اٹھی چیخ کی لمبی گونج قطرے بن کر برس پڑے ٹوٹے ٹوٹے بسمل لفظ کانوں میں نقارے باجے رگ رگ میں چنگاری دوڑی دبی دبی ساری آہیں ٹھنڈے سینوں میں ابھریں سوکھے ہونٹوں سے نکلیں بجھی بجھی سی آنکھوں میں دیکھ امنگوں کی بلی تڑپ تڑپ کے چمکے بجلی لہر لہر ٹکرائے طوفانوں کو ...

    مزید پڑھیے

    میرا جنم دن

    ذہن پہ اک گھٹا سی چھائی ہے لفظوں کی انجانی بوندیں برس رہی ہیں کوئی معنی شاید نکلیں؟ زخمی طائر میرے قلم سے لپٹ گیا اور اس کے پہلو میں اک ننھا سا تیر ہے تیر میں اک کاغذ بھی ہے اب کے میرے جنم دن پر کس نے مجھ کو یاد کیا ہے؟ میں نے کاغذ کھول کے دیکھا کچھ بھی نہ تھا صرف ٹوٹی ٹوٹی چند ...

    مزید پڑھیے

    بہت ہے ایک نظر

    قدم قدم پہ مجھے یہ خیال آتا ہے تری نظر کا سہارا ملے تو کیا کم ہے! خزاں میں رہ کے بہاروں کی آرزو نہ کروں جو زخم دل بھی مہک کر کھلے تو کیا کم ہے! ہزار چاک ہیں دامان زندگی کے مگر جو ایک چاک گریباں سلے تو کیا کم ہے! تمام تیرہ منازل سے میں گزر جاؤں جو ایک شمع محبت جلے تو کیا کم ہے! وہ گیت ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2