کیا خبر تھی کہ کبھی بے سر و ساماں ہوں گے
کیا خبر تھی کہ کبھی بے سر و ساماں ہوں گے فصل گل آتے ہی اس طرح سے ویراں ہوں گے در بدر پھرتے رہے خاک اڑاتے گزری وحشت دل ترے کیا اور بھی احساں ہوں گے راکھ ہونے لگیں جل جل کے تمنائیں مگر حسرتیں کہتی ہیں کچھ اور بھی ارماں ہوں گے یہ تو آغاز مصائب ہے نہ گھبرا اے دل ہم ابھی اور ابھی اور ...