Baqar Mehdi

باقر مہدی

ممتاز نقاد، اپنی بیباکی اور روایت شکنی کے لئے معروف

Radical Urdu critic who wrote unconventional poetry.

باقر مہدی کی غزل

    وہ رند کیا کہ جو پیتے ہیں بے خودی کے لیے

    وہ رند کیا کہ جو پیتے ہیں بے خودی کے لیے سرور چاہیئے وہ بھی کبھی کبھی کے لیے یہ کیا کہ بزم میں شمعیں جلا کے بیٹھے ہو کبھی ملو تو سر راہ دشمنی کے لیے اودھ کی شام رفیقوں کو مہ جبینوں کو ہر ایک چھوڑ کے آئے تھے بمبئی کے لیے مگر یہ کیا کہ بجز درد کچھ ہمیں نہ ملا عجیب شہر ہے یہ ایک ...

    مزید پڑھیے

    تباہ ہو کے بھی اک اپنی آن باقی ہے

    تباہ ہو کے بھی اک اپنی آن باقی ہے بغاوتوں کی تڑپ غم کی جان باقی ہے خلا میں ڈوب کے ہم کو بھی یہ ہوا معلوم کہ کچھ نہیں ہے مگر آسمان باقی ہے یہ مت کہو کہ لٹی کائنات درد تمام کہ زخم زخم یہ سارا جہان باقی ہے میں کیسے چھوڑ دوں ٹوٹے ہوئے در و دیوار شکستہ خواب کا تنہا مکان باقی ہے نہ ختم ...

    مزید پڑھیے

    سادہ کاغذ پہ کوئی نام کبھی لکھ لینا!

    سادہ کاغذ پہ کوئی نام کبھی لکھ لینا! ہو سکے ملنے کی اک شام کبھی لکھ لینا! یوں تو ہم اہل جنوں کچھ بھی نہیں کرتے ہیں گمرہی کا ہی سہی کام کبھی لکھ لینا! مے گساروں پہ تڑپنے کی بھی پابندی ہے تشنہ کاموں کے لیے جام کبھی لکھ لینا! کتنی روشن ہیں سمندر کی چمکتی راتیں ڈوبتی لہروں کا انجام ...

    مزید پڑھیے

    اور کوئی جو سنے خون کے آنسو روئے (ردیف .. ن)

    اور کوئی جو سنے خون کے آنسو روئے اچھی لگتی ہیں مگر ہم کو تمہاری باتیں ہم ملیں یا نہ ملیں پھر بھی کبھی خوابوں میں مسکراتی ہوئی آئیں گی ہماری باتیں ہائے اب جن پہ مسرت کا گماں ہوتا ہے اشک بن جائیں گی اک روز یہ پیاری باتیں یاد جب کوئی دلائے گا سر شام تمہیں جگمگا اٹھیں گی تاروں میں ...

    مزید پڑھیے

    محفلوں میں جا کے گھبرایا کیے

    محفلوں میں جا کے گھبرایا کیے دل کو اپنے لاکھ سمجھایا کیے یاس کی گہرائیوں میں ڈوب کر زخم دل سے خود کو بہلایا کیے تشنگی میں یاس و حسرت کے چراغ غم کدے میں اپنے جل جایا کیے خود فریبی کا یہ عالم تھا کہ ہم آئینہ دنیا کو دکھلایا کیے خون دل عنوان ہستی بن گیا ہم تو اپنے ساز پر گایا ...

    مزید پڑھیے

    کیا کیا نہیں کیا مگر ان پر اثر نہیں

    کیا کیا نہیں کیا مگر ان پر اثر نہیں شاید کہ اپنی سعئ جنوں کار گر نہیں گھبرا کے چاہتے ہیں کہ گردش میں ہم رہیں منزل کہیں نہ ہو کوئی ایسا سفر نہیں مل جائے ایک رات محبت کی زندگی پھر خواہش حیات ہمیں عمر بھر نہیں آوارگی میں لطف و اذیت کے باوجود ایسا نہیں ہوا ہے کہ فکر سحر نہیں

    مزید پڑھیے

    اشک میرے ہیں مگر دیدۂ نم ہے اس کا

    اشک میرے ہیں مگر دیدۂ نم ہے اس کا یہ جو ہونٹوں پہ تبسم ہے کرم ہے اس کا ان کہی بات بھلا لکھوں تو لکھوں کیسے سادے کاغذ پہ کوئی راز رقم ہے اس کا فاصلے ایسے کہ اک عمر میں طے ہو نہ سکیں قربتیں ایسی کہ خود مجھ میں جنم ہے اس کا سنگ و آہن کا بڑا شہر بھی ویرانہ لگے یہ جنوں میرا ہے اور دشت ...

    مزید پڑھیے

    عجیب دل میں مرے آج اضطراب سا ہے!

    عجیب دل میں مرے آج اضطراب سا ہے! کھلی ہے آنکھ سمندر بھی ایک خواب سا ہے! ٹھہر ٹھہر کے بجاتا ہے کوئی سازینہ میں کیا کروں مرے سینے میں اک رباب سا ہے! بجھے گی پیاس مری زہر آگہی سے کبھی مرے دیار میں اس کا مزا شراب سا ہے! میں کیوں کسی سے سر راہ رہبری مانگوں؟ نئی ہے منزل غم اک یہی جواب سا ...

    مزید پڑھیے

    کوئی حرف نفی نہ کام آیا (ردیف .. ی)

    کوئی حرف نفی نہ کام آیا کتنی سچی تھی دوستی اپنی ٹھوکریں کھا کر کے سرخ رو ٹھہرا اک دعا ہے یہ زندگی اپنی اب کہاں ہے کوئی حریف اپنا خوب ڈرتی ہے بے کسی اپنی کیسے تاریخ کو بھلا ڈالوں خوں میں ڈوبی ہے یہ صدی اپنی کچھ نہ کھاتا ہوں کچھ نہ پیتا ہوں بھوکی سوتی ہے مفلسی اپنی خالی بوتل ...

    مزید پڑھیے

    لرز لرز کے نہ ٹوٹیں تو وہ ستارے کیا

    لرز لرز کے نہ ٹوٹیں تو وہ ستارے کیا جنہیں نہ ہوش ہو غم کا وہ غم کے مارے کیا مہکتے خون سے صحرا جلے ہوئے گلشن نظر فریب ہیں دنیا کے یہ نظارے کیا امید و بیم کی یہ کشمکش ہے راز حیات سکوں نواز ہیں اس کے سوا سہارے کیا کوئی ہزار مٹائے ابھرتے آئے ہیں ہم اہل درد جنون جفا سے ہارے کیا

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4