وہ رند کیا کہ جو پیتے ہیں بے خودی کے لیے
وہ رند کیا کہ جو پیتے ہیں بے خودی کے لیے سرور چاہیئے وہ بھی کبھی کبھی کے لیے یہ کیا کہ بزم میں شمعیں جلا کے بیٹھے ہو کبھی ملو تو سر راہ دشمنی کے لیے اودھ کی شام رفیقوں کو مہ جبینوں کو ہر ایک چھوڑ کے آئے تھے بمبئی کے لیے مگر یہ کیا کہ بجز درد کچھ ہمیں نہ ملا عجیب شہر ہے یہ ایک ...