Baqar Mehdi

باقر مہدی

ممتاز نقاد، اپنی بیباکی اور روایت شکنی کے لئے معروف

Radical Urdu critic who wrote unconventional poetry.

باقر مہدی کی غزل

    میں بھاگ کے جاؤں گا کہاں اپنے وطن سے

    میں بھاگ کے جاؤں گا کہاں اپنے وطن سے جیتا ہوں مصائب کی بقا میرے لیے ہے سچ بولنے والے کو ڈراتے ہو ستم سے رک جاؤ ٹھہر جاؤ جزا میرے لیے ہے افسوس کٹی عمر کتب خانوں میں لیکن یہ وسعت صحرا یہ فضا میرے لیے ہے میں راہ یگانہ پہ ہمیشہ سے چلا ہوں رسوائی تباہی تو سدا میرے لیے ہے مجرم ہوں کہ ...

    مزید پڑھیے

    چاہا بہت کہ عشق کی پھر ابتدا نہ ہو

    چاہا بہت کہ عشق کی پھر ابتدا نہ ہو رسوائیوں کی اپنی کہیں انتہا نہ ہو جوش وفا کا نام جنوں رکھ دیا گیا اے درد آج ضبط فغاں سے سوا نہ ہو یہ غم نہیں کہ تیرا کرم ہم پہ کیوں نہیں یہ تو ستم ہے تیرا کہیں سامنا نہ ہو کہتے ہیں ایک شخص کی خاطر جیے تو کیا اچھا یوں ہی سہی تو کوئی آسرا نہ ہو یہ ...

    مزید پڑھیے

    اوروں پہ اتفاق سے سبقت ملی مجھے

    اوروں پہ اتفاق سے سبقت ملی مجھے بھولے سے سرکشی کی روایت ملی مجھے غیروں کی دوستی سے کسے ہمدمی ملی سب سے بچھڑ کے اپنی رفاقت ملی مجھے شہروں میں بھی سراب کی تحریر پڑھ سکا نا بینا فلسفی کی بصارت ملی مجھے بس میرا ذکر آتے ہی محفل اجڑ گئی شیطاں کے بعد دوسری شہرت ملی مجھے دنیا میں روز ...

    مزید پڑھیے

    اب خانماں خراب کی منزل یہاں نہیں

    اب خانماں خراب کی منزل یہاں نہیں کہنے کو آشیاں ہے مگر آشیاں نہیں عشق ستم نواز کی دنیا بدل گئی حسن وفا شناس بھی کچھ بدگماں نہیں میرے صنم کدے میں کئی اور بت بھی ہیں اک میری زندگی کے تمہیں راز داں نہیں تم سے بچھڑ کے مجھ کو سہارا تو مل گیا یہ اور بات ہے کہ میں کچھ شادماں نہیں اپنے ...

    مزید پڑھیے

    کسی پہ کوئی بھروسہ کرے تو کیسے کرے (ردیف .. ا)

    کسی پہ کوئی بھروسہ کرے تو کیسے کرے کہ آنسوؤں کے سوا اور کوئی کیا دے گا بہت ہوا تو تبسم کے چند پھولوں کو نگاہ شوخ کے ہاتھوں سے بے وفا دے گا چلے تو جاتے ہو روٹھے ہوئے مگر سن لو ہر ایک موڑ پہ کوئی تمہیں صدا دے گا عجیب منزل حیرت میں ہے جہان خراب کہ جیسے ہم سے دوانوں کو بھی سزا دے ...

    مزید پڑھیے

    ہزار چاہا لگائیں کسی سے دل لیکن (ردیف .. ا)

    ہزار چاہا لگائیں کسی سے دل لیکن بچھڑ کے تجھ سے ترے شہر میں رہا نہ گیا کبھی یہ سوچ کے روئے کہ مل سکے تسکیں مگر جو رونے پہ آئے تو پھر ہنسا نہ گیا کبھی تو بھول گئے پی کے نام تک ان کا کبھی وہ یاد جو آئے تو پھر پیا نہ گیا سنایا کرتے تھے دل کو حکایت دوراں مگر جو دل نے کہا ہم سے وہ سنا نہ ...

    مزید پڑھیے

    دشمن جاں کوئی بنا ہی نہیں

    دشمن جاں کوئی بنا ہی نہیں اتنے ہم لائق جفا ہی نہیں آزما لو کہ دل کو چین آئے یہ نہ کہنا کہیں وفا ہی نہیں ہم پشیماں ہیں وہ بھی حیراں ہیں ایسا طوفاں کبھی اٹھا ہی نہیں جانے کیوں ان سے ملتے رہتے ہیں خوش وہ کیا ہوں گے جب خفا ہی نہیں تم نے اک داستاں بنا ڈالی ہم نے تو راز غم کہا ہی ...

    مزید پڑھیے

    جو زمانے کا ہم زباں نہ رہا

    جو زمانے کا ہم زباں نہ رہا وہ کہیں بھی تو کامراں نہ رہا اس طرح کچھ بدل گئی ہے زمیں ہم کو اب خوف آسماں نہ رہا جانے کن مشکلوں سے جیتے ہیں کیا کریں کوئی مہرباں نہ رہا ایسی بیگانگی نہیں دیکھی اب کسی کا کوئی یہاں نہ رہا ہر جگہ بجلیوں کی یورش ہے کیا کہیں اپنا آشیاں نہ رہا مفلسی کیا ...

    مزید پڑھیے

    بجھی بجھی ہے صدائے نغمہ کہیں کہیں ہیں رباب روشن

    بجھی بجھی ہے صدائے نغمہ کہیں کہیں ہیں رباب روشن ٹھہر ٹھہر کے گرے ہیں آنسو بکھر بکھر کے ہیں خواب روشن سوال مبہوت سے کھڑے ہیں کہ جیسے سینوں میں دل نہیں ہیں افق کے اس پار جا کے دیکھو شکستہ مضطر جواب روشن وہ بیکسی ہے کہ العطش کی صدائیں خاموش ہو گئی ہیں کہاں ہے کوئی حسین یارو کہ ہر ...

    مزید پڑھیے

    فریب کھا کے بھی شرمندۂ سکوں نہ ہوئے (ردیف .. ا)

    فریب کھا کے بھی شرمندۂ سکوں نہ ہوئے نہ کم ہوا کسی منزل پہ ولولہ دل کا یہ سوچ کر تری محفل سے ہم چلے آئے کہ ایک بار تو بڑھ جائے حوصلہ دل کا پلٹ کے اب نہ کبھی لکھنؤ سے گزرے گا نکل گیا ہے بہت دور قافلہ دل کا حریف عشق کوئی ہو حریف غم تو نہیں کسی سے ہو نہ سکے گا مقابلہ دل کا کوئی کسی کا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4