کچھ اس لئے بھی اسے ٹوٹ کر نہیں چاہا
کچھ اس لئے بھی اسے ٹوٹ کر نہیں چاہا کہ اس کو ٹوٹی ہوئی چیز سے الرجی ہے غزل وہ تیسویں مجھ کو سنا کے کہنے لگی مزید عرض کروں جان من اگر جی ہے
کچھ اس لئے بھی اسے ٹوٹ کر نہیں چاہا کہ اس کو ٹوٹی ہوئی چیز سے الرجی ہے غزل وہ تیسویں مجھ کو سنا کے کہنے لگی مزید عرض کروں جان من اگر جی ہے
میں نے سنایا اس کو جو اردو میں حال دل کہنے لگی غلط ہیں تمہارے تلفظات میں نے لکھا کہ کیا مرا حلیہ خراب ہے اس نے لکھا نہیں نہیں املا خراب ہے
وہ حسب شہر کر لیتا ہے مسلک میں بھی تبدیلی کراچی میں جو سنی ہے وہ پنڈی میں وہابی ہے پیاز اپنی وہ لے جائیں سخن کی ورکشاپوں میں وہ جن کی شاعری کے رنگ پسٹن میں خرابی ہے اکٹھا کر نہ دیں جاناں ہمیں حالات ہی اک دن تمہارے پاس تالا ہے ہمارے پاس چابی ہے