Asif Farrukhi

آصف فرخی

ممتاز جدید افسانہ نگاروں میں شامل،اپنی ادبی صحافت کے لئے معروف۔

One of prominent short story writers, known for his literary journalism.

آصف فرخی کی رباعی

    سمندر

    یہ افزائش کا زمانہ تھا۔ کئی دن سے مجھے محسوس ہو رہا تھا کوئی چیز اندر سے بتا رہی ہے کہ ان کا وقت قریب آ گیا ہے، ان کے آنے کا وقت، وہ آ رہے ہیں، پانی پر چلتے ہوئے، ہزاروں آبی میل کا سفر طے کرتے ہوئے میرے ساحلوں پر لوٹ کر آ رہے ہیں، بھاری بھرکم، گابھن، چپ چاپ، ادھر کا رخ کیے ہوئے، ...

    مزید پڑھیے

    گائے کھائے گڑ

    اس کی ایک ایک انگلی پر دعویٰ تھا۔ ایک نہ ایک نام کی پکڑ تھی۔ یہ اماں کی۔ یہ ببا کی۔ یہ بجیا کی۔ یہ بھیو کی۔ اور باقی بچا انگوٹھا، جو لچک لچک سب کے ساتھ سب سے الگ تھرک تھرک ناچتا تھا، جس کی پور پر سیاہی کی بند کی سے آنکھیں، ناک، منہ بناتے تھے۔ بہلانے کے لیے، ابھی سے اسے بہلانے کے ...

    مزید پڑھیے

    زمین کی نشانیاں

    گھر کے راستے پر جاتے جاتے میں ٹھٹھکا تھا۔ وہ راستہ اتنا مانوس ہو چکا تھا کہ قدم خود بخود اٹھ جاتے تھے۔ لیکن آج کوئی چیز بدلی ہوئی معلوم ہو رہی تھی۔ ’’ادھر رکوانا۔‘‘ میں نے ویگن کے کنڈیکٹر سے کہا تھا، اسی طرح جیسے پچھلے کئی سال سے کہتا چلا آیا تھا۔ ایک خاص نشانی کے بعد اپنی سیٹ ...

    مزید پڑھیے

    پرندے کی فریاد

    پرندے بالکل ساکت تھے۔ وہ آدمی شیشے پر انگلی سے ٹک ٹک نہ کیے جاتا تو میری نظر ان مٹھی بھر پرندوں پر پڑتی ہی نہیں۔ میں وہاں آتا اور دیکھے بغیر گزر جاتا۔ یا پھر یہ سب دیکھتا اور دیکھے بغیر آگے بڑھ جاتا، کچھ اور دیکھنے کے لیے، کہ چلتی ہوئی گاڑی میں دیکھنے کے لیے ہر لمحے نیا منظر ہے۔ ...

    مزید پڑھیے

    بحیرۂ مردار

    ساجدہ کا چہرہ پیلا پڑتا جا رہا تھا۔ اس بار بہت احتیاط کی ضرورت تھی، ڈاکٹر نے کہا تھا۔ اس سے پہلے تین دفعہ ایسا ہو چکا تھا۔ حالاں کہ وہ پہلے دن سے احتیاط کرتی تھی۔ نہ سیڑھیاں چڑھنا، نہ بوجھ اٹھانا، نہ کوئی اور ایسا کام جس سے تھکن ہو۔ پھر بھی کہیں نہ کہیں گڑبڑ ہو جاتی تھی۔ ڈاکٹر ...

    مزید پڑھیے

    آج کا مرنا

    وہ میری آج کی موت تھی۔ اس کو مرے ہوئے نہیں دیکھا میں نے، مرتے ہوئے دیکھا۔ اتنا ہی بتا سکتا ہوں جس قدر میں نے دیکھا ہے۔ جو یوں بھی زیادہ نہیں ہے۔ اوڑھے لپیٹے کوئی لیٹا ہوا ہے۔ شاید وہ سو رہی ہے۔ میری نظر پڑی تو مجھے ایسا لگا۔ ورنہ میں تو دیکھتا بھی نہیں۔ روز اپنے ہی دھیان میں گم ...

    مزید پڑھیے

    سمندر کی بیماری

    شہر کے ساتھ والا سمندر پہلی مرتبہ اپنی ماں کی طرح اس دن لگا جب اس نے میرا گلا دبانا شروع کیا۔ آدھی سے زیادہ رات گزرنے کے بعد ڈھائی، پونے تین بج رہے ہوں گے۔ یعنی وہ گھڑی گزر چکی تھی جب میری بے خوابی عام راتوں میں عروج پر ہوتی ہے۔ پورے دن کی تھکن اور نیند سے محروم باقی ماندہ رات کے ...

    مزید پڑھیے

    ویلنٹائن

    خاموشی اتنی تھی کہ رونے کی آواز سنائی نہیں دی۔ یا پھر شاید وہ رو نہیں رہا ہوگا، بے آواز سسکیاں بھر رہا ہوگا جس وقت میں گھر میں داخل ہو رہا تھا۔ میں نے سنا ہی نہیں۔ میں اندر آ رہا تھا۔ شام ڈھل رہی تھی۔ اس روز بھی دفتر سے اٹھتے اٹھتے دیر ہوگئی تھی۔۔۔ نہیں معلوم کہ یہ خدا کی مار ...

    مزید پڑھیے

    سمندر کی چوری

    ابھی وقت تھا۔ پانی اور آسمان کے بیچ میں روشنی کی وہ پہلی، کچی پکی، تھرتھراتی ہوئی کرن پھوٹنے بھی نہ پائی تھی کہ شہر والوں نے دیکھا سمندر چوری ہوچکا ہے۔ دن نکلا تھا نہ سمندر کے کنارے شہر نے جاگنا شروع کیا تھا۔ رات کا اندھیرا پوری طرح سمٹا بھی نہیں تھا کہ اندازہ ہونے لگا، ایسا ...

    مزید پڑھیے

    ستارہ غیب

    میز پر بساط بچھی ہوئی تھی، ہم چاروں اس کے گرد جمع تھے اور بازی شروع ہونے والی تھی۔ یہ ہمارا روزانہ کا معمول تھا۔ ہم رات کے وقت کھیلتے تھے، کیوں کہ دن میں اپنی اپنی ذمہ داریاں سنبھالنی ہوتی تھیں۔ اپنا دن ہمیں دنیا کو دینا پڑتا تھا تب کہیں جا کر رات آزاد ملتی تھی کہ اپنی اندرونی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2