Asad Multani

اسد ملتانی

اسد ملتانی کی غزل

    ان عقل کے بندوں میں آشفتہ سری کیوں ہے

    ان عقل کے بندوں میں آشفتہ سری کیوں ہے یہ تنگ دلی کیوں ہے یہ کم نظری کیوں ہے اسرار اگر سمجھے دنیا کی ہر اک شے کے خود اپنی حقیقت سے یہ بے خبری کیوں ہے سو جلوے ہیں نظروں سے مانند نظر پنہاں دعویٔ جہاں بینی اے دیدہ وری کیوں ہے حل جن کا عمل سے ہے پیکار و جدل سے ہے ان زندہ مسائل پر بحث ...

    مزید پڑھیے

    تماشا ہے کہ سب آزاد قومیں

    تماشا ہے کہ سب آزاد قومیں بہی جاتی ہیں آزادی کی رو میں وہ گرد کارواں بن کے چلے ہیں ستارے تھے رواں جن کے جلو میں سفر کیسا فقط آوارگی ہے نہیں منزل نگاہ راہرو میں ہے سوز دل ہی راز زندگانی حیات شمع ہے صرف اس کی لو میں بہت تھے ہم زباں لیکن جو دیکھا نہ نکلا ایک بھی ہمدرد سو میں اسدؔ ...

    مزید پڑھیے

    پوچھی نہ چشم تر کی نہ آہ رسا کی بات

    پوچھی نہ چشم تر کی نہ آہ رسا کی بات کرتے رہے وہ مجھ سے بس آب و ہوا کی بات کیا بات میں سے بات نکلتی چلی گئی تھا مدعا یہی کہ نہ ہو مدعا کی بات رسم و رہ جہاں کی سفارش رہی مگر پھر بھی تو آنے پائی نہ اہل وفا کی بات کیا رسم التفات زمانے سے اٹھ گئی سب کی زباں پر ہے ستم ناروا کی بات طوفاں ...

    مزید پڑھیے