Asad Jafri

اسد جعفری

  • 1935

اسد جعفری کی غزل

    رواں ہے قافلۂ جستجو کدھر میرا

    رواں ہے قافلۂ جستجو کدھر میرا کوئی سمجھ نہ سکا مقصد سفر میرا سکون روح ملا حلقۂ رسن میں مجھے وگرنہ بار گراں تھا بدن پہ سر میرا میں اپنے ہاتھ کے چھالے دکھاتا پھرتا ہوں دلائے کوئی مجھے حصۂ ثمر میرا ہر اک شجر ہے مرا یوں تو سارے جنگل میں عجب ستم ہے نہیں سایۂ شجر میرا کہو یہ ابر سے ...

    مزید پڑھیے

    صرف کہنے کو کوئی عظمت نشاں بنتا نہیں

    صرف کہنے کو کوئی عظمت نشاں بنتا نہیں چند قطروں سے تو بحر بیکراں بنتا نہیں چار چھ پھولوں سے اپنے گھر کا گلدستہ سجا چار چھ پھولوں سے ہرگز گلستاں بنتا نہیں کارواں کا پاس ہے تجھ کو تو پانی پر نہ چل یہ وہ جادہ ہے جہاں کوئی نشاں بنتا نہیں بے سر و ساماں پرندو کاش تم یہ سوچتے کون سی ...

    مزید پڑھیے

    خیال یار مجھے جب لہو رلانے لگا

    خیال یار مجھے جب لہو رلانے لگا تو زخم زخم مرے دل کا مسکرانے لگا مجھے خود اپنی وفا پر بھی اعتماد نہیں میں کیوں تمہاری محبت کو آزمانے لگا کیا ہے یاد مجھے میرے بعد دنیا نے ہوا جو غرق تو ساحل قریب آنے لگا نہ چھین مجھ سے سرور شب فراق نہ چھین قرار دل کو نہ دستک کے تازیانے لگا مثال ...

    مزید پڑھیے

    کوئی دل جوئی نہیں تھی کوئی شنوائی نہ تھی

    کوئی دل جوئی نہیں تھی کوئی شنوائی نہ تھی جیسے اہل شہر سے میری شناسائی نہ تھی مجھ کو اک چپ چاپ سے چہرے نے زخمی کر دیا میں نے ایسی چوٹ ساری زندگی کھائی نہ تھی غور سے دیکھیں تو ہے یادوں کے رنگوں کا کمال اس قدر دل کش کبھی تصویر تنہائی نہ تھی کر دیا جس نے مجھے پھر زندگی سے ہمکنار تھا ...

    مزید پڑھیے

    جو بزم دہر میں کل تک تھے خود سروں کی طرح

    جو بزم دہر میں کل تک تھے خود سروں کی طرح بکھر گئے ہیں وہ ٹوٹے ہوئے پروں کی طرح شکستہ روح ہے جسموں کے گنبدوں میں اسیر ہیں میرے دور کے انسان مقبروں کی طرح ڈرو تم ان سے کہ وہ راز دار طوفاں ہیں جو ایک عمر سے چپ ہیں سمندروں کی طرح پڑا جو وقت تو وہ پھر نظر نہیں آئے یقیں کریں کہ جو ملتے ...

    مزید پڑھیے

    ملال ہجر نہیں رنج بے رخی بھی نہیں

    ملال ہجر نہیں رنج بے رخی بھی نہیں کہ اعتبار کے قابل تو زندگی بھی نہیں کروں میں خون تمنا کا کس لیے ماتم مرے لیے یہ مصیبت کوئی نئی بھی نہیں میں پھر بھی شام و سحر بے قرار رہتا ہوں اگرچہ گھر میں کسی چیز کی کمی بھی نہیں مجھے خبر ہے کہ انجام وصل کیا ہوگا اسی لیے ترے ملنے کی کچھ خوشی ...

    مزید پڑھیے

    جب تک وہ شعلہ رو مرے پیش نظر نہ تھا

    جب تک وہ شعلہ رو مرے پیش نظر نہ تھا میں آشنائے لذت سوز جگر نہ تھا اعزاز رنگ و بو سے نوازا گیا اسے جس گل کے سر پہ سایۂ شاخ شجر نہ تھا افسوس آپ سے نہ ہوا عزم التفات ورنہ مرا پہاڑ کی چوٹی پہ گھر نہ تھا جو آسماں کی جھیل میں چمکا تمام رات وہ تیرا عکس نقش قدم تھا قمر نہ تھا شبنم سے تر ...

    مزید پڑھیے

    ششدر و حیران ہے جو بھی خریداروں میں ہے

    ششدر و حیران ہے جو بھی خریداروں میں ہے اک سکوت بے کراں ہر سمت بازاروں میں ہے نوبت قحط مسیحائی یہاں تک آ گئی کچھ دنوں سے آرزوئے مرگ بیماروں میں ہے وہ بھی کیا دن تھے کہ جب ہر وصف اک اعزاز تھا آج تو عظمت قباؤں اور دستاروں میں ہے اڑ رہے ہیں رنگ پھولوں کے فقط اس بات پر التفات فصل گل ...

    مزید پڑھیے

    جاؤں کہاں شعور ہنر کس کے پاس ہے

    جاؤں کہاں شعور ہنر کس کے پاس ہے آنکھیں ہیں سب کے پاس نظر کس کے پاس ہے حد نظر میں منزل مقصود ہے مگر جائے گا کون رخت سفر کس کے پاس ہے زخموں میں ہو رہے ہیں اضافے نئے نئے لیکن نہیں خبر کہ تبر کس کے پاس ہے ہم ہیں بقول ان کے اگر تیرگی پسند پھر دوستو کلید سحر کس کے پاس ہے میں قامت شجر کا ...

    مزید پڑھیے