Arif Ishtiaque

عارف اشتیاق

عارف اشتیاق کی غزل

    یہی ہونا تھا اور ہوا جاناں

    یہی ہونا تھا اور ہوا جاناں ہو گئے ہم جدا جدا جاناں کوئی آساں نہ تھی تری فرقت میں حقیقت میں رو پڑا جاناں ترے اندر ہوں میں ہی میں ہر سو مرے اندر تو جا بجا جاناں ہنس کے ملتا ہے ہر کوئی ایسے جیسے ہر شخص ہو خفا جاناں اب میں چلتا ہوں چل خدا حافظ شہر یہ وہ نہیں رہا جاناں

    مزید پڑھیے

    تو مری زندگی بنو گی تم

    تو مری زندگی بنو گی تم مر گیا میں تو کیا رہو گی تم نہیں عادت کوئی بھلی تم میں مجھے ظاہر ہے کیوں گنو گی تم وہ جو زہرہ ہے، ہے مری دیوی جان جل جل کے جل مرو گی تم کیا سلگتا ہوں کیا دہکتا ہوں اب کہو! مجھ سے کب ملو گی تم مری عادت ہے کاٹ کھانے کی مرے بوسوں کو کیا سہو گی تم میں جو ہوں میں ...

    مزید پڑھیے

    میں اب اکتا گیا ہوں فرقتوں سے

    میں اب اکتا گیا ہوں فرقتوں سے نکالوں کس طرح تجھ کو رگوں سے جدائی تاک میں بیٹھی ہوئی تھی محبت کر رہے تھے مشوروں سے تجھے میں نے مجھے تو نے گنوایا مگر اب فائدہ ان تذکروں سے دعائیں ہو گئیں نا رد تمہاری میں قائل ہی نہیں ہوں فلسفوں سے مرے سب حوصلے مارے گئے ہیں تمہاری کم سنی کے ...

    مزید پڑھیے

    عمر بھر کا ہوا زیاں جاناں

    عمر بھر کا ہوا زیاں جاناں ہم یہاں اور تم وہاں جاناں نیند آئی نہیں کئی دن سے خواب ہونے لگے گراں جاناں کون جانے تری مری الجھن کون سمجھے گا یہ زباں جاناں بعد تیرے یہی رہا عالم دھول ہی دھول اور دھواں جاناں تو بھی ظاہر نہیں زمانے پہ میں بھی ہوتا نہیں عیاں جاناں

    مزید پڑھیے

    گلہ ترے فراق کا جو آج کل نہیں رہا

    گلہ ترے فراق کا جو آج کل نہیں رہا تو کیوں بھلا یہ مستقل عذاب ٹل نہیں رہا میں کس سے التجا کروں کہاں سے ابتدا کروں دعا اہل رہی نہیں گلہ بدل نہیں رہا میں راستوں کی بھیڑ میں کہاں یہ آ گیا کہ اب کوئی بھی راستہ تری گلی نکل نہیں رہا وہ نقش پا کو دیکھ کر چلا ہو مجھ کو ڈھونڈنے اسی گمان ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2