Anwar Shuoor

انور شعور

پاکستان کے ممتاز ترین شاعروں میں سے ایک، ایک اخبار میں روزانہ حالات حاضرہ پر ایک قطعہ لکھتے ہیں

Leading Pakistani poet who writes a four-lined on current affairs daily for the Pakistani Newspaper Jung.

انور شعور کی غزل

    جو ہم کلام ہو ہم سے اسی کے ہوتے ہیں

    جو ہم کلام ہو ہم سے اسی کے ہوتے ہیں ہم ایک وقت میں ایک آدمی کے ہوتے ہیں کوئی جہاں میں خوشی سے گزارنا چاہے تو بے شمار بہانے خوشی کے ہوتے ہیں جمالیات کے پرچے میں آٹھ نو نمبر فقط شگفتگی و دلکشی کے ہوتے ہیں کسی کے ساتھ بھی بیٹھے ہوئے دکھائی دیں تصورات میں ہم آپ ہی کے ہوتے ہیں شعورؔ ...

    مزید پڑھیے

    نہیں ملتے شعورؔ آنسو بہاتے

    نہیں ملتے شعورؔ آنسو بہاتے نظر آتے ہیں ہنستے مسکراتے وہ گھنٹوں بیٹھتے ہیں دوستوں میں مگر دیکھا اکیلے آتے جاتے نکل جاتے ہیں نا معلوم جانب وہ گرد و پیش سے نظریں بچاتے جسے کہتے ہیں لوگ ام الخبائث رہے ان کے اسی سے رشتے ناطے وہ کیا جنات سے کرتے ہیں باتیں انہیں پایا گیا ہے ...

    مزید پڑھیے

    خواہ دل سے مجھے نہ چاہے وہ

    خواہ دل سے مجھے نہ چاہے وہ ظاہری وضع تو نباہے وہ گرچہ میں کیا مری وفائیں کیا اس کا احسان اگر سراہے وہ تاکہ بالکل نہ بھول پائے کوئی ملتے رہتے ہیں گاہے گاہے وہ ایک ہی بات ہے محبت میں چاہے میں جیت جاؤں چاہے وہ چن سکو گے نہ کوئی سمت شعورؔ راہ میں آئیں گے دوراہے وہ

    مزید پڑھیے

    فرشتوں سے بھی اچھا میں برا ہونے سے پہلے تھا

    فرشتوں سے بھی اچھا میں برا ہونے سے پہلے تھا وہ مجھ سے انتہائی خوش خفا ہونے سے پہلے تھا کیا کرتے تھے باتیں زندگی بھر ساتھ دینے کی مگر یہ حوصلہ ہم میں جدا ہونے سے پہلے تھا حقیقت سے خیال اچھا ہے بیداری سے خواب اچھا تصور میں وہ کیسا سامنا ہونے سے پہلے تھا اگر معدوم کو موجود کہنے ...

    مزید پڑھیے

    ان کی صورت ہمیں آئی تھی پسند آنکھوں سے

    ان کی صورت ہمیں آئی تھی پسند آنکھوں سے اور پھر ہو گئی بالا و بلند آنکھوں سے کوئی زنجیر نہیں تار نظر سے مضبوط ہم نے اس چاند پہ ڈالی ہے کمند آنکھوں سے ٹھہر سکتی ہے کہاں اس رخ تاباں پہ نظر دیکھ سکتا ہے اسے آدمی بند آنکھوں سے ہم اٹھاتے ہیں مزہ تلخی و شیرینی کا مے پیالے سے پلاتا ہے ...

    مزید پڑھیے

    ہو گئے دن جنہیں بھلائے ہوئے

    ہو گئے دن جنہیں بھلائے ہوئے آج کل ہیں وہ یاد آئے ہوئے میں نے راتیں بہت گزاری ہیں صرف دل کا دیا جلائے ہوئے ایک اسی شخص کا نہیں مذکور ہم زمانے کے ہیں ستائے ہوئے سونے آتے ہیں لوگ بستی میں سارے دن کے تھکے تھکائے ہوئے مسکرائے بغیر بھی وہ ہونٹ نظر آتے ہیں مسکرائے ہوئے گو فلک پہ ...

    مزید پڑھیے

    اس میں کیا شک ہے کہ آوارہ ہوں میں

    اس میں کیا شک ہے کہ آوارہ ہوں میں کوچے کوچے میں پھرا کرتا ہوں میں مجھ سے سرزد ہوتے رہتے ہیں گناہ آدمی ہوں کیوں کہوں اچھا ہوں میں صاف و شفاف آسماں کو دیکھ کر گندی گندی گالیاں بکتا ہوں میں قہوہ خانوں میں بسر کرتا ہوں دن قحبہ خانوں میں سحر کرتا ہوں میں دن گزرتا ہے مرا احباب ...

    مزید پڑھیے

    مشتاق بدستور زمانہ ہے تمہارا

    مشتاق بدستور زمانہ ہے تمہارا آنے سے فسوں خیز نہ آنا ہے تمہارا لیلیٰ کی حکایت بھی حکایت ہے تمہاری شیریں کا فسانہ بھی فسانہ ہے تمہارا اس دل کی خبر تم سے زیادہ کسے ہوگی انداز مگر بے خبرانہ ہے تمہارا تم حسن مجسم ہو بلا شرکت غیرے ناقابل تقسیم خزانہ ہے تمہارا دل میں کوئی آ جائے تو ...

    مزید پڑھیے

    اگرچہ آئنۂ دل میں ہے قیام اس کا

    اگرچہ آئنۂ دل میں ہے قیام اس کا نہ کوئی شکل ہے اس کی نہ کوئی نام اس کا وہی خدا کبھی ملوائے گا ہمیں اس سے جو انتظار کراتا ہے صبح و شام اس کا ہمارے ساتھ نہیں جا سکا تھا وہ لیکن رہا خیال سیاحت میں گام گام اس کا خدا کو پیار ہے اپنے ہر ایک بندے سے سفید فام ہے اس کا سیاہ فام اس کا کما ...

    مزید پڑھیے

    اتفاق اپنی جگہ خوش قسمتی اپنی جگہ

    اتفاق اپنی جگہ خوش قسمتی اپنی جگہ خود بناتا ہے جہاں میں آدمی اپنی جگہ کہہ تو سکتا ہوں مگر مجبور کر سکتا نہیں اختیار اپنی جگہ ہے بے بسی اپنی جگہ کچھ نہ کچھ سچائی ہوتی ہے نہاں ہر بات میں کہنے والے ٹھیک کہتے ہیں سبھی اپنی جگہ صرف اس کے ہونٹ کاغذ پر بنا دیتا ہوں میں خود بنا لیتی ہے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 5 سے 5