سپر مین
میں نے کہا کہ آپ نے روک لیا ہے کیوں ہمیں اس نے کہا تم ایسی بات اپنی زباں پہ لائے کیوں تم تو ہو صرف آدمی ہم ہیں پولس کے آدمی بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم کوئی گزر کے جائے کیوں
برصغیر میں طنز و مزاح کے ممتاز شاعر
One of the prominent poets of Humour & Satire in the Indian subcontinent
میں نے کہا کہ آپ نے روک لیا ہے کیوں ہمیں اس نے کہا تم ایسی بات اپنی زباں پہ لائے کیوں تم تو ہو صرف آدمی ہم ہیں پولس کے آدمی بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم کوئی گزر کے جائے کیوں
جائیں گے قافلے بھی بہر طور اسی طرف اور ان کے ساتھ ساتھ لٹیرے بھی جائیں گے انورؔ خدا کرے کہ یہ سچی نہ ہو خبر اکیسویں صدی میں وڈیرے بھی جائیں گے
یہی درماں ہے میری اقتصادی تیرہ بختی کا مرے اندر کوئی پھوٹے کرن خود احتسابی کی مری منصوبہ بندی میں چھپی ہے قرض کی دیمک ''مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی''
میں ان سے پوچھا صاحب اس کی کیا تدبیر کریں جس کی آنکھوں کو لپکا ہے دل پر زخم لگانے کا کہنے لگے وہ انورؔ صاحب آپ بھی کتنے بھولے ہیں میرے پاس اٹھا لائے ہیں کیس زنانے تھانے کا
طے ہو گیا ہے مسئلہ جب انتساب کا اب یہ بھی کوئی کام ہے لکھنا کتاب کا کھایا ہے سیر ہو کے خیالی پلاؤ آج پانی پھر اس کے بعد پیا ہے سراب کا دیکھی ہے ایک فلم پرانی تو یوں لگا جیسے کہ کوئی کام کیا ہے ثواب کا شوگر نہ ہو کسی بھی مسلماں کو اے خدا مشکل سا اک سوال ہے یہ بھی حساب کا انورؔ مری ...
تجھے مجھ سے مجھ کو تجھ سے جو بہت ہی پیار ہوتا نہ تجھے قرار ہوتا نہ مجھے قرار ہوتا ترا ہر مرض الجھتا مری جان ناتواں سے جو تجھے زکام ہوتا تو مجھے بخار ہوتا جو میں تجھ کو یاد کرتا تجھے چھینکنا بھی پڑتا مرے ساتھ بھی یقیناً یہی بار بار ہوتا کسی چوک میں لگاتے کوئی چوڑیوں کا ...
ہے آپ کے ہونٹوں پہ جو مسکان وغیرہ قربان گئے اس پہ دل و جان وغیرہ بلی تو یوں ہی مفت میں بدنام ہوئی ہے تھیلے میں تو کچھ اور تھا سامان وغیرہ بے حرص و غرض قرض ادا کیجیے اپنا جس طرح پولس کرتی ہے چالان وغیرہ اب ہوش نہیں کوئی کہ بادام کہاں ہے اب اپنی ہتھیلی پہ ہیں دندان وغیرہ کس ناز ...
وہ جو دودھ شہد کی کھیر تھی وہ جو نرم مثل حریر تھی وہ جو آملے کا اچار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو جو ہرن کے سیخ کباب تھے وہ جواب اپنا جواب تھے وہ جو کوئٹہ کا انار تھا وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو وہ جو سیب زینت باغ تھے وہ جو شاخ شاخ چراغ تھے وہ جو آلوؤں کو ...
اگر ہیں تیغ میں جوہر جواہر میں خمیرے میں ادھر زور آزمائی ہے ادھر طاقت کے نسخے ہیں مطب میں اور میدان دغا میں فرق اتنا ہے وہاں کشتوں کے پشتے ہیں یہاں پشتوں کے کشتے ہیں
کلرکوں کی سبھی میزوں پہ انورؔ ہر اک فائل مزے سے سو رہی ہے اگرچہ کام سارے رک گئے ہیں مگر میٹنگ برابر ہو رہی ہے