Anwar Masood

انور مسعود

برصغیر میں طنز و مزاح کے ممتاز شاعر

One of the prominent poets of Humour & Satire in the Indian subcontinent

انور مسعود کی غزل

    کیوں کسی اور کو دکھ درد سناؤں اپنے

    کیوں کسی اور کو دکھ درد سناؤں اپنے اپنی آنکھوں سے بھی میں زخم چھپاؤں اپنے میں تو قائم ہوں ترے غم کی بدولت ورنہ یوں بکھر جاؤں کہ خود ہاتھ نہ آؤں اپنے شعر لوگوں کے بہت یاد ہیں اوروں کے لیے تو ملے تو میں تجھے شعر سناؤں اپنے تیرے رستے کا جو کانٹا بھی میسر آئے میں اسے شوق سے کالر پر ...

    مزید پڑھیے

    میں دیکھ بھی نہ سکا میرے گرد کیا گیا تھا

    میں دیکھ بھی نہ سکا میرے گرد کیا گیا تھا کہ جس مقام پہ میں تھا وہاں اجالا تھا درست ہے کہ وہ جنگل کی آگ تھی لیکن وہیں قریب ہی دریا بھی اک گزرتا تھا تم آ گئے تو چمکنے لگی ہیں دیواریں ابھی ابھی تو یہاں پر بڑا اندھیرا تھا لبوں پہ خیر تبسم بکھر بکھر ہی گیا یہ اور بات کہ ہنسنے کو دل ...

    مزید پڑھیے

    اسے تو پاس خلوص وفا ذرا بھی نہیں

    اسے تو پاس خلوص وفا ذرا بھی نہیں مگر یہ آس کا رشتہ کہ ٹوٹتا بھی نہیں گھرے ہوئے ہیں خموشی کی برف میں کب سے کسی کے پاس کوئی تیشۂ صدا بھی نہیں مآل غنچہ و گل ہے مری نگاہوں میں مجھے تبسم‌ کاذب کا حوصلہ بھی نہیں طلوع صبح ازل سے میں ڈھونڈھتا تھا جسے ملا تو ہے پہ مری سمت دیکھتا بھی ...

    مزید پڑھیے

    جو بارشوں میں جلے تند آندھیوں میں جلے

    جو بارشوں میں جلے تند آندھیوں میں جلے چراغ وہ جو بگولوں کی چمنیوں میں جلے وہ لوگ تھے جو فریب نظر کے متوالے تمام عمر سرابوں کے پانیوں میں جلے کچھ اس طرح سے لگی آگ بادبانوں کو کہ ڈوبنے کو بھی ترسے جو کشتیوں میں جلے یہی ہے فیصلہ تیرا کہ جو تجھے چاہے وہ درد‌ و کرب و الم کی کٹھالیوں ...

    مزید پڑھیے

    اس ابتدا کی سلیقے سے انتہا کرتے

    اس ابتدا کی سلیقے سے انتہا کرتے وہ ایک بار ملے تھے تو پھر ملا کرتے کواڑ گرچہ مقفل تھے اس حویلی کے مگر فقیر گزرتے رہے صدا کرتے ہمیں قرینۂ رنجش کہاں میسر ہے ہم اپنے بس میں جو ہوتے ترا گلا کرتے تری جفا کا فلک سے نہ تذکرہ چھیڑا ہنر کی بات کسی کم ہنر سے کیا کرتے تجھے نہیں ہے ابھی ...

    مزید پڑھیے

    کب ضیا بار ترا چہرۂ زیبا ہوگا

    کب ضیا بار ترا چہرۂ زیبا ہوگا کیا جب آنکھیں نہ رہیں گی تو اجالا ہوگا مشغلہ اس نے عجب سونپ دیا ہے یارو عمر بھر سوچتے رہیے کہ وہ کیسا ہوگا جانے کس رنگ سے روٹھے گی طبیعت اس کی جانے کس ڈھنگ سے اب اس کو منانا ہوگا اس طرف شہر ادھر ڈوب رہا تھا سورج کون سیلاب کے منظر پہ نہ رویا ہوگا یہی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3