Anwar Masood

انور مسعود

برصغیر میں طنز و مزاح کے ممتاز شاعر

One of the prominent poets of Humour & Satire in the Indian subcontinent

انور مسعود کی غزل

    اس حسیں کے خیال میں رہنا

    اس حسیں کے خیال میں رہنا عالم بے مثال میں رہنا کب تلک روح کے پرندے کا ایک مٹی کے جال میں رہنا اب یہی نغمگی کی ندرت ہے سر میں رہنا نہ تال میں رہنا بے اثر کر گیا ہے واعظ کو ہر گھڑی قیل و قال میں رہنا انورؔ اس نے نہ میں نے چھوڑا ہے اپنے اپنے خیال میں رہنا

    مزید پڑھیے

    شکوۂ گردش حالات لیے پھرتا ہے

    شکوۂ گردش حالات لیے پھرتا ہے جس کو دیکھو وہ یہی بات لیے پھرتا ہے اس نے پیکر میں نہ ڈھلنے کی قسم کھائی ہے اور مجھے شوق ملاقات لیے پھرتا ہے شاخچہ ٹوٹ چکا کب کا شجر سے لیکن اب بھی کچھ سوکھے ہوئے پات لیے پھرتا ہے سوچئے جسم ہے اب روح سے کیسے روٹھے اپنے سائے کو بھی جو سات لیے پھرتا ...

    مزید پڑھیے

    دنیا بھی عجب قافلۂ تشنہ لباں ہے

    دنیا بھی عجب قافلۂ تشنہ لباں ہے ہر شخص سرابوں کے تعاقب میں رواں ہے تنہا تری محفل میں نہیں ہوں کہ مرے ساتھ اک لذت پابندیٔ اظہار و بیاں ہے حق بات پہ ہے زہر بھرے جام کی تعزیر اے غیرت ایماں لب سقراط کہاں ہے کھیتوں میں سماتی نہیں پھولی ہوئی سرسوں باغوں میں ابھی تک وہی ہنگام خزاں ...

    مزید پڑھیے

    رات آئی ہے بلاؤں سے رہائی دے گی

    رات آئی ہے بلاؤں سے رہائی دے گی اب نہ دیوار نہ زنجیر دکھائی دے گی وقت گزرا ہے پہ موسم نہیں بدلا یارو ایسی گردش ہے زمیں خود بھی دہائی دے گی یہ دھندلکا سا جو ہے اس کو غنیمت جانو دیکھنا پھر کوئی صورت نہ سجھائی دے گی دل جو ٹوٹے گا تو اک طرفہ چراغاں ہوگا کتنے آئینوں میں وہ شکل دکھائی ...

    مزید پڑھیے

    مجھے خود سے بھی کھٹکا سا لگا تھا

    مجھے خود سے بھی کھٹکا سا لگا تھا مرے اندر بھی اک پہرا لگا تھا ابھی آثار سے باقی ہیں دل میں کبھی اس شہر میں میلہ لگا تھا جدا ہوگی کسک دل سے نہ اس کی جدا ہوتے ہوئے اچھا لگا تھا اکٹھے ہو گئے تھے پھول کتنے وہ چہرہ ایک باغیچہ لگا تھا پئے جاتا تھا انورؔ آنسوؤں کو عجب اس شخص کو چسکا ...

    مزید پڑھیے

    میری قسمت کہ وہ اب ہیں مرے غم خواروں میں

    میری قسمت کہ وہ اب ہیں مرے غم خواروں میں کل جو شامل تھے ترے حاشیہ برداروں میں زہر ایجاد کرو اور یہ پیہم سوچو زندگی ہے کہ نہیں دوسرے سیاروں میں کتنے آنسو ہیں کہ پلکوں پہ نہیں آ سکتے کتنی خبریں ہیں جو چھپتی نہیں اخباروں میں اب تو دریا کی طبیعت بھی ہے گرداب پسند اور وہ پہلی سی ...

    مزید پڑھیے

    درمیاں گر نہ ترا وعدۂ فردا ہوتا

    درمیاں گر نہ ترا وعدۂ فردا ہوتا کس کو منظور یہ زہر غم دنیا ہوتا کیا قیامت ہے کہ اب میں بھی نہیں وہ بھی نہیں دیکھنا تھا تو اسے دور سے دیکھا ہوتا کاسۂ زخم طلب لے کے چلا ہوں خالی سنگ ریزہ ہی کوئی آپ نے پھینکا ہوتا فلسفہ سر بہ گریباں ہے بڑی مدت سے کچھ نہ ہوتا تو خدا جانے کہ پھر کیا ...

    مزید پڑھیے

    اشارتوں کی وہ شرحیں وہ تجزیہ بھی گیا

    اشارتوں کی وہ شرحیں وہ تجزیہ بھی گیا جو گرد متن بنا تھا وہ حاشیہ بھی گیا وہ دل ربا سے جو سپنے تھے لے اڑیں نیندیں دھنک نگر سے وہ دھندلا سا رابطہ بھی گیا عجیب لطف تھا نادانیوں کے عالم میں سمجھ میں آئیں تو باتوں کا وہ مزہ بھی گیا ہمیں بھی بننے سنورنے کا دھیان رہتا تھا وہ ایک شخص کہ ...

    مزید پڑھیے

    درد بڑھتا ہی رہے ایسی دوا دے جاؤ

    درد بڑھتا ہی رہے ایسی دوا دے جاؤ کچھ نہ کچھ میری وفاؤں کا صلا دے جاؤ یوں نہ جاؤ کہ میں رو بھی نہ سکوں فرقت میں میری راتوں کو ستاروں کی ضیا دے جاؤ ایک بار آؤ کبھی اتنے اچانک پن سے نا امیدی کو تحیر کی سزا دے جاؤ دشمنی کا کوئی پیرایۂ نادر ڈھونڈو جب بھی آؤ مجھے جینے کی دعا دے ...

    مزید پڑھیے

    کب تلک یوں دھوپ چھاؤں کا تماشا دیکھنا

    کب تلک یوں دھوپ چھاؤں کا تماشا دیکھنا دھوپ میں پھرنا گھنے پیڑوں کا سایا دیکھنا ساتھ اس کے کوئی منظر کوئی پس منظر نہ ہو اس طرح میں چاہتا ہوں اس کو تنہا دیکھنا رات اپنے دیدۂ گریاں کا نظارہ کیا کس سے پوچھیں خواب میں کیسا ہے دریا دیکھنا اس گھڑی کچھ سوجھنے دے گی نہ یہ پاگل ہوا اک ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3