Amjad Islam Amjad

امجد اسلام امجد

پاکستانی ٹی وی سیریلوں کے لئے مشہور

Pakistani poet famous for TV Serials written by him.

امجد اسلام امجد کی نظم

    ایک کمرۂ امتحان میں

    بے نگاہ آنکھوں سے دیکھتے ہیں پرچے کو بے خیال ہاتھوں سے ان بنے سے لفظوں پر انگلیاں گھماتے ہیں یا سوال نامے کو دیکھتے ہی جاتے ہیں سوچتے نہیں اتنا جتنا سر کھجاتے ہیں ہر طرف کنکھیوں سے بچ بچا کے تکتے ہیں دوسروں کے پرچوں کو رہنما سمجھتے ہیں شاید اس طرح کوئی راستہ ہی مل جائے بے نشاں ...

    مزید پڑھیے

    آشوب آگہی

    کوئی بتلائے مجھے میرے ان جاگتے خوابوں کا مقدر کیا ہے؟ میں کہ ہر شے کی بقا جانتا ہوں اڑتے لمحوں کا پتا جانتا ہوں سرد اور زرد ستاروں کی تگاپو کیا ہے رنگ کیا چیز ہے خوشبو کیا ہے صبح کا سحر ہے کیا، رات کا جادو کیا ہے اور کیا چیز ہے آواز صبا جانتا ہوں ریت اور نقش قدم موج کا رم آنکھ اور ...

    مزید پڑھیے

    ایک تھا ملا نصرالدین

    ایک تھا ملا نصرالدین کرتا تھا باتیں نمکین کام تھا اس کا احمق بننا سیدھی بات کو الٹا کرنا کھانے پینے کا شوقین ایک تھا ملا نصرالدین اس سے ہیں منسوب لطیفے مزے مزے کے ڈھیروں قصے خوشیوں کی تھا ایک مشین ایک تھا ملا نصرالدین ایک گدھا تھا اس کے پاس ایک گدھی تھی جس کی ساس اور بچے تھے اس کے ...

    مزید پڑھیے

    چشم بے خواب کو سامان بہت

    چشم بے خواب کو سامان بہت! رات بھر شہر کی گلیوں میں ہوا ہاتھ میں سنگ لیے خوف سے زرد مکانوں کے دھڑکتے دل پر دستکیں دیتی چلی جاتی ہے روشنی بند کواڑوں سے نکلتے ہوئے گھبراتی ہے ہر طرف چیخ سی چکراتی ہے ہیں مرے دل کے لیے درد کے عنوان بہت درد کا نام سماعت کے لیے راحت جاں دست بے مایہ کو ...

    مزید پڑھیے

    سمندر آسمان اور میں

    کھلیں جو آنکھیں تو سر پہ نیلا فلک تنا تھا چہار جانب سیاہ پانی کی تند موجوں کا غلغلہ تھا ہوائیں چیخوں کو اور کراہوں کو لے کے چلتی تھیں اور مٹی کی زرد خوشبو میں موت موسم کا ذائقہ تھا نظر مناظر میں ڈوب کر بھی مثال شیشہ تہی تھی یعنی گل تماشا نہیں کھلا تھا ہراس جذبوں کی رہ گزر میں دل ...

    مزید پڑھیے

    سورج کی پہلی کرن

    سن اے ہوائے بے دلی ابھی تو چشم تر میں ان کی صورتیں رواں دواں ہیں جن کے سانس کی مہک میں جا چکی بہار کا نکھار ہے کہ جن کے خواب کی چمک پلک پلک بکھرتی آرزو میں پائیدار ہے ابھی تو ان کی خاک کو زمین بھی نہیں ملی سن اے ہوائے بے دلی اگرچہ اس دیار میں ہر ایک سو کئی رتوں کی گم شدہ بہار کا فشار ...

    مزید پڑھیے

    آبلہ

    اداسی کے افق پر جب تمہاری یاد کے جگنو چمکتے ہیں تو میری روح پر رکھا ہوا یہ ہجر کا پتھر چمکتی برف کی صورت پگھلتا ہے! اگرچہ یوں پگھلنے سے یہ پتھر، سنگ ریزہ تو نہیں بنتا! مگر اک حوصلہ سا دل کو ہوتا ہے، کہ جیسے سر بسر تاریک شب میں بھی اگر اک زرد رو، سہما ہوا تارا نکل آئے تو قاتل رات کا ...

    مزید پڑھیے

    ایک اور مشورہ

    بستیاں ہوں کیسی بھی پستیاں ہوں جیسی بھی ہر طرح کی ظلمت کو روشنی کہا جائے خاک ڈالیں منزل پر بھول جائیں ساحل کو رخ جدھر ہو پانی کا اس طرف بہا جائے ملک بیچ ڈالیں یا آبرو رکھیں گروی جیسا حکم حاکم ہو اس طرح کیا جائے شور میں صداؤں کے اجنبی ہواؤں کے کون سننے والا ہے؟ کس سے اب کہا ...

    مزید پڑھیے

    یوں تو اس دنیا کی ہر اک چیز نیاری ہے

    یوں تو اس دنیا کی ہر اک چیز نیاری ہے لیکن اپنے دیس کی دھرتی سب سے پیاری ہے چندا ماموں نیل گگن میں اچھے لگتے ہیں روشن روشن تارے کیسے پیارے لگتے ہیں نیل گگن نے اپنی محفل خوب سنواری ہے کھیت سنہرے بادل گہرے موسم پیارے ہیں منظر منظر پھول کھلاتے خواب ہمارے ہیں اللہ کے انعام کا کیسا ...

    مزید پڑھیے

    فاصلے

    اب وہ آنکھوں کے شگوفے ہیں نہ چہروں کے گلاب ایک منحوس اداسی ہے کہ مٹتی ہی نہیں اتنی بے رنگ ہیں اب رنگ کی خوگر آنکھیں جیسے اس شہر تمنا سے کوئی ربط نہ تھا جیسے دیکھا تھا سراب دیکھ لیتا ہوں اگر کوئی شناسا چہرہ ایک لمحے کو اسے دیکھ کے رک جاتا ہوں سوچتا ہوں کہ بڑھوں اور کوئی بات کروں اس ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4