Amjad Islam Amjad

امجد اسلام امجد

پاکستانی ٹی وی سیریلوں کے لئے مشہور

Pakistani poet famous for TV Serials written by him.

امجد اسلام امجد کی غزل

    جب بھی آنکھوں میں ترے وصل کا لمحہ چمکا

    جب بھی آنکھوں میں ترے وصل کا لمحہ چمکا چشم بے آب کی دہلیز پہ دریا چمکا فصل گل آئی کھلے باغ میں خوشبو کے علم دل کے ساحل پہ ترے نام کا تارا چمکا عکس بے نقش ہوئے آئنے دھندلانے لگے درد کا چاند سر بام تمنا چمکا رنگ آزاد ہوئے گل کی گرہ کھلتے ہی ایک لمحے میں عجب باغ کا چہرا چمکا پیرہن ...

    مزید پڑھیے

    تھے خواب ایک ہمارے بھی اور تمہارے بھی

    تھے خواب ایک ہمارے بھی اور تمہارے بھی پر اپنا کھیل دکھاتے رہے ستارے بھی یہ زندگی ہے یہاں اس طرح ہی ہوتا ہے سبھی نے بوجھ سے لادے ہیں کچھ اتارے بھی سوال یہ ہے کہ آپس میں ہم ملیں کیسے ہمیشہ ساتھ تو چلتے ہیں دو کنارے بھی کسی کا اپنا محبت میں کچھ نہیں ہوتا کہ مشترک ہیں یہاں سود بھی ...

    مزید پڑھیے

    جب بھی اس شخص کو دیکھا جائے

    جب بھی اس شخص کو دیکھا جائے کچھ کہا جائے نہ سوچا جائے دیدۂ کور ہے قریہ قریہ آئنہ کس کو دکھایا جائے دامن عہد وفا کیا تھا میں دل ہی ہاتھوں سے جو نکلا جائے درد مندوں سے تغافل کب تک اس کو احساس دلایا جائے کیا وہ اتنا ہی حسیں لگتا ہے اس کو نزدیک سے دیکھا جائے وہ کبھی سر ہے کبھی رنگ ...

    مزید پڑھیے

    یہ جو حاصل ہمیں ہر شے کی فراوانی ہے

    یہ جو حاصل ہمیں ہر شے کی فراوانی ہے یہ بھی تو اپنی جگہ ایک پریشانی ہے زندگی کا ہی نہیں ٹھور ٹھکانہ معلوم موت تو طے ہے کہ کس وقت کہاں آنی ہے کوئی کرتا ہی نہیں ذکر وفاداری کا ان دنوں عشق میں آسانی ہی آسانی ہے کب یہ سوچا تھا کبھی دوست کہ یوں بھی ہوگا تیری صورت تری آواز سے پہچانی ...

    مزید پڑھیے

    جو دن تھا ایک مصیبت تو رات بھاری تھی

    جو دن تھا ایک مصیبت تو رات بھاری تھی گزارنی تھی مگر زندگی، گزاری تھی سواد شوق میں ایسے بھی کچھ مقام آئے نہ مجھ کو اپنی خبر تھی نہ کچھ تمہاری تھی لرزتے ہاتھوں سے دیوار لپٹی جاتی تھی نہ پوچھ کس طرح تصویر وہ اتاری تھی جو پیار ہم نے کیا تھا وہ کاروبار نہ تھا نہ تم نے جیتی یہ بازی نہ ...

    مزید پڑھیے

    حضور یار میں حرف التجا کے رکھے تھے

    حضور یار میں حرف التجا کے رکھے تھے چراغ سامنے جیسے ہوا کے رکھے تھے بس ایک اشک ندامت نے صاف کر ڈالے وہ سب حساب جو ہم نے اٹھا کے رکھے تھے سموم وقت نے لہجے کو زخم زخم کیا وگرنہ ہم نے قرینے صبا کے رکھے تھے بکھر رہے تھے سو ہم نے اٹھا لیے خود ہی گلاب جو تری خاطر سجا کے رکھے تھے ہوا کے ...

    مزید پڑھیے

    کان لگا کر سنتی راتیں باتیں کرتے دن

    کان لگا کر سنتی راتیں باتیں کرتے دن کہاں گئیں وہ اچھی راتیں باتیں کرتے دن ایک ہی منظر شہر پہ اپنے کب سے ٹھہرا ہے کچھ سوئی کچھ جاگی راتیں باتیں کرتے دن دیوانوں کے خواب کی صورت ان مل اور بے جوڑ اپنے آپ سے لڑتی راتیں باتیں کرتے دن جانے کب یہ میل کریں گے ایک دوجے کے ساتھ خاموشی میں ...

    مزید پڑھیے

    صدیاں جن میں زندہ ہوں وہ سچ بھی مرنے لگتے ہیں

    صدیاں جن میں زندہ ہوں وہ سچ بھی مرنے لگتے ہیں دھوپ آنکھوں تک آ جائے تو خواب بکھرنے لگتے ہیں انسانوں کے روپ میں جس دم سائے بھٹکیں سڑکوں پر خوابوں سے دل چہروں سے آئینے ڈرنے لگتے ہیں کیا ہو جاتا ہے ان ہنستے جیتے جاگتے لوگوں کو بیٹھے بیٹھے کیوں یہ خود سے باتیں کرنے لگتے ہیں عشق کی ...

    مزید پڑھیے

    لہو میں رنگ لہرانے لگے ہیں

    لہو میں رنگ لہرانے لگے ہیں زمانے خود کو دہرانے لگے ہیں پروں میں لے کے بے حاصل اڑانیں پرندے لوٹ کر آنے لگے ہیں کہاں ہے قافلہ باد صبا کا دلوں کے پھول مرجھانے لگے ہیں کھلے جو ہم نشینوں کے گریباں خود اپنے زخم افسانے لگے ہیں کچھ ایسا درد تھا بانگ جرس میں سفر سے قبل پچھتانے لگے ...

    مزید پڑھیے

    لہو میں تیرتے پھرتے ملال سے کچھ ہیں

    لہو میں تیرتے پھرتے ملال سے کچھ ہیں کبھی سنو تو دلوں میں سوال سے کچھ ہیں میں خود بھی ڈوب رہا ہوں ہر اک ستارے میں کہ یہ چراغ مرے حسب حال سے کچھ ہیں غم فراق سے اک پل نظر نہیں ہٹتی اس آئنے میں ترے خد و خال سے کچھ ہیں اک اور موج کہ اے سیل اشتباہ ابھی ہماری کشت یقیں میں خیال سے کچھ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5