نظم: یہ جو وقت ہے مِرے شہر پر
امجد اسلام امجد کی تغیر کی آرزو لیے ایک نظم " کوئی گرد باد اُٹھے کہِیں ، کسی زلزلے کی نمود ہو " یا جوش ملیح آبادی کے الفاظ میں ، " نہ بُوئے گُل نہ بادِ صبا مانگتے ہیں لوگ ؛ وہ حبس ہے ، کہ لُو کی دعا مانگتے ہیں لوگ "
پاکستانی ٹی وی سیریلوں کے لئے مشہور
Pakistani poet famous for TV Serials written by him.
امجد اسلام امجد کی تغیر کی آرزو لیے ایک نظم " کوئی گرد باد اُٹھے کہِیں ، کسی زلزلے کی نمود ہو " یا جوش ملیح آبادی کے الفاظ میں ، " نہ بُوئے گُل نہ بادِ صبا مانگتے ہیں لوگ ؛ وہ حبس ہے ، کہ لُو کی دعا مانگتے ہیں لوگ "
تشہیر اپنے درد کی ہر سو کرائیے جی چاہتا ہے منت طفلاں اٹھائیے خوشبو کا ہاتھ تھام کے کیجے تلاش رنگ پاؤں کے نقش دیکھ کے رستہ بنائیے پھر آج پتھروں سے ملاقات کیجیے پھر آج سطح آب پہ چہرے بنائیے ہر انکشاف درد کے پردے میں آئے گا گر ہو سکے تو خود سے بھی خود کو چھپائے پھولوں کا راستہ ...
ہوائیں لاکھ چلیں لو سنبھلتی رہتی ہے دیے کی روح میں کیا چیز جلتی رہتی ہے کسے خبر کہ یہ اک دن کدھر کو لے جائے لہو کی موج جو سر میں اچھلتی رہتی ہے اگر کہوں تو تمہیں بھی نہ اعتبار آئے جو آرزو مرے دل میں مچلتی رہتی ہے مدار سے نہیں ہٹتا کوئی ستارا کیوں یہ کس حصار میں ہر چیز چلتی رہتی ...
بند تھا دروازہ بھی اور اگر میں بھی تنہا تھا میں وہم تھا جانے مرا یا آپ ہی بولا تھا میں یاد ہے اب تک مجھے وہ بد حواسی کا سماں تیرے پہلے خط کو گھنٹوں چومتا رہتا تھا میں راستوں پر تیرگی کی یہ فراوانی نہ تھی اس سے پہلے بھی تمہارے شہر میں آیا تھا میں میری انگلی پر ہیں اب تک میرے ...
رات میں اس کشمکش میں ایک پل سویا نہیں کل میں جب جانے لگا تو اس نے کیوں روکا نہیں یوں اگر سوچوں تو اک اک نقش ہے سینے پہ نقش ہائے وہ چہرہ کہ پھر بھی آنکھ میں بنتا نہیں کیوں اڑاتی پھر رہی ہے در بدر مجھ کو ہوا میں اگر اک شاخ سے ٹوٹا ہوا پتا نہیں آج تنہا ہوں تو کتنا اجنبی ماحول ہے ایک ...
سائے ڈھلنے چراغ جلنے لگے لوگ اپنے گھروں کو چلنے لگے اتنی پر پیچ ہے بھنور کی گرہ جیسے نفرت دلوں میں پلنے لگے دور ہونے لگی جرس کی صدا کارواں راستے بدلنے لگے اس کے لہجے میں برف تھی لیکن چھو کے دیکھا تو ہاتھ جلنے لگے اس کے بند قبا کے جادو سے سانپ سے انگلیوں میں چلنے لگے راہ گم ...
کچھ کیا جائے نہ سوچا جائے مڑ کے دیکھوں تو نہ دیکھا جائے میری تنہائی کی وحشت سے ہراساں ہو کر میرا سایہ میرے قدموں میں سمٹ آیا ہے کون ہے پھر جو مرے ساتھ چلا آتا ہے میرا سایہ تو نہیں!! کس کی آہٹ کا گماں یوں مرے پاؤں کی زنجیر بنا جاتا ہے دور تا حد نظر شہر کے آثار نہیں اور دشمن کی طرح شام ...
ہجوم سنگ انا اور ضبط پیہم نے مثال ریگ رواں بے قرار رکھا ہے مرے وجود کی وحشت نے رات بھر مجھ کو غبار قافلۂ انتظار رکھا ہے بہ پیش خدمت چشم سراب آلودہ ہوا نے دست طلب بار بار رکھا ہے میں تیری یاد کے جادو میں تھا سحر مجھ کو نجانے کون سی منزل پہ لا کے چھوڑ گئی کہ سانس سانس میں تیرے بدن ...
آج کی رات بہت سرد بہت کالی ہے تیرگی ایسے لپٹتی ہے ہوائے غم سے اپنے بچھڑے ہوئے ساجن سے ملی ہے جیسے مشعل خواب کچھ اس طور بجھی ہے جیسے درد نے جاگتی آنکھوں کی چمک کھا لی ہے شوق کا نام نہ خواہش کا نشاں ہے کوئی برف کی سل نے مرے دل کی جگہ پا لی ہے اب دھندلکے بھی نہیں زینت چشم بے خواب آس کا ...
اے دل بے خبر جو ہوا جا چکی اب نہیں آئے گی جو شجر ٹوٹ جاتا ہے پھلتا نہیں واپسی موسموں کا مقدر تو ہے جو سماں بیت جائے پلٹتا نہیں جانے والے نہیں لوٹتے عمر بھر اب کسے ڈھونڈھتا ہے سر رہ گزر اے دل کم نظر اے مرے بے خبر اے مرے ہم سفر وہ تو خوشبو تھا اگلے نگر جا چکا چاندنی تھا ہوا صرف رنگ ...
اک خواب کی آہٹ سے یوں گونج اٹھیں گلیاں امبر پہ کھلے تارے باغوں میں ہنسیں کلیاں ساگر کی خموشی میں اک موج نے کروٹ لی اور چاند جھکا اس پر پھر بام ہوئے روشن کھڑکی کے کواڑوں پر سایہ سا کوئی لرزا اور تیز ہوئی دھڑکن پھر ٹوٹ گئی چوڑی، اجڑنے لگے منظر اک دست حنائی کی دستک سے کھلا دل میں اک ...
مرے خوش نظر مرے خوش خبر یہ جو رات ہے اسے ٹال دے مرے گلستاں پہ نگاہ کر اسے اپنا رنگ جمال دے
سر کہکشاں مرا عکس ہو مرے شوق کو پر و بال دے مرے فن سے پھیلے جو روشنی اسے پھر کبھی نہ زوال دے
مرے کاسۂ شب و روز میں کوئی شام ایسی بھی ڈال دے سبھی خواہشوں کو ہرا کرے سبھی خوف دل سے نکال دے