رفتہ رفتہ سب ساتھی ساتھ چھوڑ آئے تھے
رفتہ رفتہ سب ساتھی ساتھ چھوڑ آئے تھے دشت غم میں کاٹی ہے میں نے زندگی تنہا میری موت کا ماتم دشت غم میں کرتا کون پھوٹ پھوٹ کر روئی میری بے کسی تنہا
ممتاز نثار،طنز نگار اور شاعر
Prominent fiction writer, satarist and poet
رفتہ رفتہ سب ساتھی ساتھ چھوڑ آئے تھے دشت غم میں کاٹی ہے میں نے زندگی تنہا میری موت کا ماتم دشت غم میں کرتا کون پھوٹ پھوٹ کر روئی میری بے کسی تنہا
اگر مزار پہ سورج بھی لا کے رکھ دو گے اجل نصیب نہ پائے گا روشنی کا سراغ بھٹک رہے ہیں اندھیروں میں کارواں کتنے جلا سکو تو جلاؤ صداقتوں کے چراغ
یہ پر فریب ستارے یہ بجلیوں کے چراغ جواب جلوۂ خورشید ہو نہیں سکتے شب فراق کا پہلا سا درد و غم ہے وہی یہ اور بات ہے اب کھل کے رو نہیں سکتے
رات تو کالی تھی لیکن رات گزر کر صبح جو آئی اور گھٹے کم تاب اجالے اور بڑھے ظلمات کے سائے اب میں سحر کے نغمے گا کر خود کو کب تک دھوکے دوں گا ہونٹ ہوئے جاتے ہیں زخمی دل کا یہ عالم بیٹھا جائے
صحرا صحرا غم کے بگولے بستی بستی درد کی آگ جینے کا ماحول نہیں ہے لیکن پھر بھی جیتے ہیں ساغر ساغر زہر گھلا ہے قطرہ قطرہ قاتل ہے یہ سب کچھ معلوم ہے لیکن پیاس لگی ہے پیتے ہیں
کیوں ہوئے قتل ہم پر یہ الزام ہے قتل جس نے کیا ہے وہی مدعی قاضئ وقت نے فیصلہ دے دیا لاش کو نذر زنداں کیا جائے گا اب عدالت میں یہ بحث چھڑنے کو ہے یہ جو قاتل کو تھوڑی سی زحمت ہوئی یہ جو خنجر میں ہلکا سا خم آ گیا اس کا تاوان کس سے لیا جائے گا
دیوانوں کو اہل خرد نے چوراہے پر سولی دی ہے تھی یہ فرد جرم کہ اس نے فرزانوں پر کنکر پھینکا بار الہٰی تیری دہائی یہ منصف تو اہل نظر ہیں ان کو خبر ہے سنگ ملامت پہلے کس نے کس پر پھینکا
الجھے ہوئے سانسوں کی گھٹن کیسے دکھاؤں اندر جو ہیں زخموں کے چمن کیسے دکھاؤں یوں شیشۂ دل سنگ حوادث نے کیا چور نس نس میں ہے کرچوں کی چبھن کیسے دکھاؤں
آپ کی راہ میں کیا کیا نہ سہا تھا ہم نے آپ نے پھر بھی وفادار نہیں مانا تھا اور جب ہنستے ہوئے کھیل گئے جان پہ ہم کہہ دیا آپ نے منہ پھیر کے دیوانہ تھا
اوس کا ننھا سا قطرہ ہوں پھولوں میں تل جاؤں گا دولت کی میزان میں لیکن تول نہ پائے گا کوئی شہر کے ہر شہ زور سے کہہ دو پوری کوشش کر دیکھے میرے دست طلب کی مٹھی کھول نہ پائے گا کوئی