اٹھے کہاں بیٹھے کہاں کب آئے گئے کب
اٹھے کہاں بیٹھے کہاں کب آئے گئے کب بیگم کی طرح تم بھی حسابات کرو ہو
اٹھے کہاں بیٹھے کہاں کب آئے گئے کب بیگم کی طرح تم بھی حسابات کرو ہو
جب پڑھا جور و جفا میں نے تو آئی یہ صدا ٹھیک سے پڑھ اسے جورو ہے جفا سے پہلے
ہوتے ہیں کام اپنے سارے ہی کچھ عجب سے یہ سلسلہ ہے جاری بالغ ہوئے ہیں جب سے دو بار ان کو چھیڑا ہم نے بس اک سبب سے اک بار اک سبب سے اک بار سبب سے
اک چھوڑو ہو اک اور جو مس مات کرو ہو ہر سال یہ کیا قبلۂ حاجات کرو ہو سمجھو ہو کہاں اوروں کو تم اپنے برابر بس منہ سے مساوات مساوات کرو ہو کیا حسن کی دولت بھی کبھی بانٹو ہو صاحب سننے میں تو آیا ہے کہ خیرات کرو ہو مل جاؤں تو کرتے ہو نہ ملنے کی شکایت گھر آؤں تو خاطر نہ مدارات کرو ...
کوئی لے زور کی چٹکی تو ہے انکار پوشیدہ کوئی چپکے سے چٹکی لے تو ہے اقرار چٹکی میں اک اپنے واسطے ہے دوسرا جس سے وہ ہاریں گے وہ لے کر گھومتے ہیں آج کل دو ہار چٹکی میں حنا آلود چٹکی دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کسی نے جیسے بھر دی ہو کوئی گلنار چٹکی میں وہ چٹکی لے کے دیتا ہے محبت صرف چٹکی ...
کیا کرتے ہیں دل داری دل آزاری نہیں کرتے ہنسانے کے لیے ہم بات بازاری نہیں کرتے مزاح و طنز میں ملحوظ رکھتے ہیں متانت کو کبھی مجروح ہم کرتے نہیں لفظوں کی حرمت کو جو کم شاداب چہرے ہیں انہیں شاداب کرتے ہیں جو کم سن ہیں بہت جھک کر انہیں آداب کرتے ہیں اجالے کو اجالا رات کو ہم رات کہتے ...
ٹریفک کے اک افسر سے یہ بولیں ایک محترمہ ہمیں مجبور کیوں کرتے ہو تم رکنے رکانے پر ہماری عمر اب ایسی ہے ہم سیٹی نہیں سنتے رکا کرتے تھے خوش ہو کر کبھی سیٹی بجانے پر
اک یار سے میں نے کہا دو لفظ ہی لکھ دو چلتی ہے سفارش یہاں اور تم ہو صحافی کہنے لگے کافی کی پیالی کو اٹھا کر بس نام بتا دینا مرا نام ہے کافی
ٹوٹا تھا گھر میں کیا کیا یہ عرض پھر کروں گا پھر گھر میں کیا ہوا تھا یہ عرض پھر کروں گا اتنا بڑا لفافہ اور کام تھا ذرا سا کیا کام تھا ذرا سا یہ عرض پھر کروں گا ملا نہ کیا کیا تھا ملا نہ کیا کیا ہے ملا کرے گا کیا کیا یہ عرض پھر کروں گا دیکھا جو شیخ جی نے بولے کہ مختصر ہے وہ کیا ہے ...
لباس نو میں رکھی ہے رعایت ایسی ٹیلر نے کہ اس میں ہیرا پھیری جنس کی معلوم ہوتی ہے پتہ مشکل سے چلتا ہے مذکر اور مؤنث کا کبھی معلوم ہوتا ہے کبھی معلوم ہوتی ہے