اٹھے کہاں بیٹھے کہاں کب آئے گئے کب
اٹھے کہاں بیٹھے کہاں کب آئے گئے کب بیگم کی طرح تم بھی حسابات کرو ہو
اٹھے کہاں بیٹھے کہاں کب آئے گئے کب بیگم کی طرح تم بھی حسابات کرو ہو
جب پڑھا جور و جفا میں نے تو آئی یہ صدا ٹھیک سے پڑھ اسے جورو ہے جفا سے پہلے
ہوتے ہیں کام اپنے سارے ہی کچھ عجب سے یہ سلسلہ ہے جاری بالغ ہوئے ہیں جب سے دو بار ان کو چھیڑا ہم نے بس اک سبب سے اک بار اک سبب سے اک بار سبب سے
اک چھوڑو ہو اک اور جو مس مات کرو ہو ہر سال یہ کیا قبلۂ حاجات کرو ہو سمجھو ہو کہاں اوروں کو تم اپنے برابر بس منہ سے مساوات مساوات کرو ہو کیا حسن کی دولت بھی کبھی بانٹو ہو صاحب سننے میں تو آیا ہے کہ خیرات کرو ہو مل جاؤں تو کرتے ہو نہ ملنے کی شکایت گھر آؤں تو خاطر نہ مدارات کرو ...
کوئی لے زور کی چٹکی تو ہے انکار پوشیدہ کوئی چپکے سے چٹکی لے تو ہے اقرار چٹکی میں اک اپنے واسطے ہے دوسرا جس سے وہ ہاریں گے وہ لے کر گھومتے ہیں آج کل دو ہار چٹکی میں حنا آلود چٹکی دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کسی نے جیسے بھر دی ہو کوئی گلنار چٹکی میں وہ چٹکی لے کے دیتا ہے محبت صرف چٹکی ...