دل شکستہ حریف شباب ہو نہ سکا
دل شکستہ حریف شباب ہو نہ سکا یہ جام ظرف نواز شراب ہو نہ سکا کچھ ایسے رحم کے قابل تھے ابتدا ہی سے ہم کہ ان سے بھی ستم بے حساب ہو نہ سکا نظر نہ آیا کبھی شب کو ان کا جلوۂ رخ یہ آفتاب کبھی ماہتاب ہو نہ سکا نگاہ فیض سے محروم برتری معلوم ستارہ چمکا مگر آفتاب ہو نہ سکا ہے جام خالی تو ...