ماضی کی روایات میں گڑ جاتے ہیں
ماضی کی روایات میں گڑ جاتے ہیں مردوں کی طرح قبر میں سڑ جاتے ہیں میں دوست سے بچھڑا ہوا شاعر ہی سہی لوگ اپنے زمانے سے بچھڑ جاتے ہیں
طنز پر مائل جذباتی شدت کے لئے معروف
Known for his emotional intensity tinged with irony
ماضی کی روایات میں گڑ جاتے ہیں مردوں کی طرح قبر میں سڑ جاتے ہیں میں دوست سے بچھڑا ہوا شاعر ہی سہی لوگ اپنے زمانے سے بچھڑ جاتے ہیں
کچھ اپنی ستائش میں مزہ آتا ہے کچھ عجز و نیائش میں مزہ آتا ہے لذت کی تلاش آہ کہاں لے آئی زخموں کی نمائش میں مزہ آتا ہے
بت لاکھوں محبت میں تراشے ایسے سینے میں بہت دفن ہیں لاشے ایسے یہ حسرت و ارمان و تمنا کے جلوس دیکھے ہیں بہت ہم نے تماشے ایسے
وہ یاس کہ امید کہ چشمے پھوٹیں وہ غم کہ طرب زار بہاریں لوٹیں کیا چیز ہے واللہ یہ مسلک اپنا وہ کفر کہ ایمان کے چھکے چھوٹیں
اے بخت! مزے کچھ تو اٹھاؤں میں بھی لذت جو مٹانے میں ہے پاؤں میں بھی کچھ تو نے ملایا مجھے خاک و خوں میں کچھ خاک میں اب خود کو ملاؤں میں بھی
آفات و حوادث سے بھری ہے دنیا دکھڑوں سے غرض پٹی پڑی ہے دنیا زنہار تعلی نہیں میرا یہ قول میرے ہی لیے خلق ہوئی ہے دنیا
آتا نہیں سانسوں میں مزہ پنے کا کھلتا ہی نہیں زخم مرے سینے کا ہر روز اگر ایک رباعی نہ کہوں ہوتا نہیں حق جیسے ادا جینے کا
اک تیر کلیجے میں پرویا ہم نے اک زخم دل زار میں بویا ہم نے لوٹا کیے پھر عمر بھر آہوں کے مزے یوں جنت و دوزخ کو سمویا ہم نے
آسودگیٔ ذات نہیں ہو سکتی سیرابئ جذبات نہیں ہو سکتی جو اتنی تنک مایہ ہو دنیا اس میں میری گزر اوقات نہیں ہو سکتی
جینے کی بظاہر نہیں کچھ آس ہمیں لے ڈوبے گی اک روز یہی پیاس ہمیں لو ختم ہوا آج فریب امید اب یاس کی جانب سے بھی ہے یاس ہمیں