تقدیر ازل آہ تو بھرتی ہوگی
تقدیر ازل آہ تو بھرتی ہوگی روح ابدی درد سے مرتی ہوگی سچ یہ ہے کہ ہم اہل جہاں کیا جانیں جو خالق عالم پہ گزرتی ہوگی
طنز پر مائل جذباتی شدت کے لئے معروف
Known for his emotional intensity tinged with irony
تقدیر ازل آہ تو بھرتی ہوگی روح ابدی درد سے مرتی ہوگی سچ یہ ہے کہ ہم اہل جہاں کیا جانیں جو خالق عالم پہ گزرتی ہوگی
اس طرح طبیعت کبھی شیدا نہ ہوئی یہ آگ محبت میں بھی پیدا نہ ہوئی اللہ رے معبودۂ احساس و خیال وہ صبح جو مطلع پہ ہویدا نہ ہوئی
تسکین غم دل کے لیے جیتا ہوں جیتا بھی نہیں، چاک جگر سیتا ہوں اے گردش ایام تری عمر دراز میں بادہ نہیں تیرا لہو پیتا ہوں
تشکیک نے ایقان سے محروم رکھا تدقیق نے عرفان سے محروم رکھا القصہ نہ در پے ہو ہمارے کہ ہمیں اللہ نے ایمان سے محروم رکھا
یہ آج کی دنیا بھی ہے مرنے والی اک زندگیٔ نو ہے ابھرنے والی ہم پچھلی صدی میں ہیں ابھی اور یہاں موجودہ صدی بھی ہے گزرنے والی
کیا خاک کرم ہے جو مجھے تو بخشے واللہ ستم ہے جو مجھے تو بخشے بخشوں گا نہ میں تیرے جہاں کو یارب تجھ کو بھی قسم ہے جو مجھے تو بخشے
اس ہاتھ سے جو کچھ میں لیا کرتا ہوں اس ہاتھ سے پھر دے بھی دیا کرتا ہوں انفاس کی قیمت ہیں یہ میرے اشعار میں قرض سے آزاد جیا کرتا ہوں
کچھ فیض تو میں نے بھی لٹایا بارے کچھ رنگ تو محفل میں جمایا بارے سرمایۂ عبرت ہوں زمانے کے لیے دنیا کے کسی کام تو آیا بارے
سوتے میں کوئی آہ بھری تو ہوگی سینے میں کوئی ہوک اٹھی تو ہوگی رونے کی اک آواز کبھی پچھلے پہر صدقے تری نیندوں کے سنی تو ہوگی
اک ٹیس کلیجے کو مسلتی ہی رہی اک سوت خیالوں میں ابلتی ہی رہی تاریک رہا جادۂ ہستی لیکن اک شمع مرے سینے میں جلتی ہی رہی