مطربہ جب صدائے ساز کے ساتھ
مطربہ جب صدائے ساز کے ساتھ اپنی آواز کو اٹھاتی ہے تھام لیتا ہوں دل کو میں لیکن منہ سے توبہ نکل ہی جاتی ہے
طنز پر مائل جذباتی شدت کے لئے معروف
Known for his emotional intensity tinged with irony
مطربہ جب صدائے ساز کے ساتھ اپنی آواز کو اٹھاتی ہے تھام لیتا ہوں دل کو میں لیکن منہ سے توبہ نکل ہی جاتی ہے
نیند آتی ہے اس طرح شب کو جیسے پینے میں نشہ چڑھتا ہے صبح اس طرح سو کے اٹھتے ہیں جیسے سیلاب آگے بڑھتا ہے
باتیں کرنے میں پھول جھڑتے ہیں برق گرتی ہے مسکرانے میں نظریں! جیسے فراخ دل ساقی خم لنڈھائے شراب خانے میں
اس روپہلی شراب نوریں سے کاش میں جام شعر بھر سکتا! اے شب مہ کے منتشر جلوو! کاش میں تم کو نظم کر سکتا
دل کو برباد کئے جاتی ہے غم بدستور دیے جاتی ہے مر چکیں ساری امیدیں اخترؔ آرزو ہے کہ جیے جاتی ہے
غم دل کا علاج دنیا میں شاید اس کے سوا کچھ اور نہ ہو کہ زمانے کے سارے تیر ستم اپنے دل میں پرو کے بیٹھ رہو
اب کہاں ہوں کہاں نہیں ہوں میں جس جگہ ہوں وہاں نہیں ہوں میں کون آواز دے رہا ہے مجھے؟ کوئی کہہ دو یہاں نہیں ہوں میں
ہائے کیا قہر تھی وہ پہلی نظر جس میں محسوس یہ ہوا اخترؔ مجھ پہ گویا کسی نے پھینک دی ہیں ایک مٹھی میں بجلیاں بھر کر
جو پوچھتا ہے کوئی سرخ کیوں ہیں آج آنکھیں تو آنکھیں مل کے میں کہتا ہوں رات سو نہ سکا ہزار چاہوں مگر یہ نہ کہہ سکوں گا کبھی کہ رات رونے کی خواہش تھی اور رو نہ سکا
ہمیشہ وقت سحر جب قریب ہوتا ہے ہوائیں چلتی ہیں سارا جہان سوتا ہے تجھے خبر نہیں او غم سے بے خبر! اس وقت ترے پڑوس میں اک غم نصیب روتا ہے