ان میں رہتی تھی اک ہنسی بن کر
ان میں رہتی تھی اک ہنسی بن کر وہ مسرت جو اب نصیب نہیں یہی آنکھیں جو آج روتی ہیں کبھی اخترؔ ہنسا بھی کرتی تھیں
طنز پر مائل جذباتی شدت کے لئے معروف
Known for his emotional intensity tinged with irony
ان میں رہتی تھی اک ہنسی بن کر وہ مسرت جو اب نصیب نہیں یہی آنکھیں جو آج روتی ہیں کبھی اخترؔ ہنسا بھی کرتی تھیں
ہے غم روزگار کا موضوع اک چمن جس میں گل نہیں کھلتے چاہتا ہوں کہ کچھ لکھوں اس پر لیکن الفاظ ہی نہیں ملتے
جی کو ناحق نڈھال کرتے ہو روح کو پائمال کرتے ہو آدمی اور گناہ سے پرہیز! تم بھی اخترؔ کمال کرتے ہو
دل تو روئے مگر میں گائے جاؤں روح تڑپے میں مسکرائے جاؤں شعر کہتا رہوں یونہی اخترؔ بات بگڑی ہوئی بنائے جاؤں
پھوار، ابر، پرندوں کے گیت، مست ہوا بھرے کٹوروں کی صورت چھلک رہی ہے فضا بہار کان میں کچھ کہہ رہی ہے مجھ سے مگر وہ بے خودی ہے کہ میں کچھ سمجھ نہیں سکتا
فضا ہے نور کی بارش سے سیم گوں اس وقت جہان مست پہ طاری ہے اک سکوں اس وقت نہ چھیڑ درد جدائی کی داستاں اے دل مجھے خبر نہیں میں کس کے پاس ہوں اس وقت
پانی لے سکتے ہیں دریا سے مگر کوزے میں ہم بہتے دریا کی روانی بند کر سکتے نہیں شعر یوں کہنے کو کہہ لیں لیکن اخترؔ سچ یہ ہے دل کے محسوسات کو لفظوں میں بھر سکتے نہیں
چاندنی، تارے، ابر کے ٹکڑے ہائے کس قہر کی حسیں ہے رات لیجئے وہ پھوار پڑنے لگی آج کیوں ہوش میں نہیں ہے رات
خوں بھرے جام انڈیلتا ہوں میں ٹیس اور درد جھیلتا ہوں میں تم سمجھتے ہو شعر کہتا ہوں اپنے زخموں سے کھیلتا ہوں میں
زخم کھانے کے دن گئے لیکن یاد کے زخم تو مہکتے ہیں آنکھیں اب بھی برستی ہیں اخترؔ دل کے داغ آج بھی دہکتے ہیں