ہوا تھی ٹھنڈی ٹھنڈی چاندنی تھی اور دریا تھا
ہوا تھی ٹھنڈی ٹھنڈی چاندنی تھی اور دریا تھا کہیں نزدیک ہی جنگل میں کوئی گیت گاتا تھا فضا میں رس بھرے نغموں کی ہلکی ہلکی بارش تھی مرے دامن میں چھم چھم آنسوؤں کا مینہ برستا تھا
طنز پر مائل جذباتی شدت کے لئے معروف
Known for his emotional intensity tinged with irony
ہوا تھی ٹھنڈی ٹھنڈی چاندنی تھی اور دریا تھا کہیں نزدیک ہی جنگل میں کوئی گیت گاتا تھا فضا میں رس بھرے نغموں کی ہلکی ہلکی بارش تھی مرے دامن میں چھم چھم آنسوؤں کا مینہ برستا تھا
محبت! اے کہ تو دیوی ہے غم کی روئے جا اگر سفینہ ہو نازک تو یونہی کھیتے ہیں ان آنسوؤں ہی سے زینت ہے تیرے عارض کی یہ اشک خوں ترے رخ پر بہار دیتے ہیں
تیری نازک اور لانبی انگلیاں ساز کے تاروں کو جب کرتی ہیں مس جھومنے لگتی ہے زہرہ عرش پر دل پکار اٹھتا ہے بس للہ! بس
کسی خیال میں مدہوش جا رہا تھا میں اندھیری رات تھی تاریکیوں کی بارش تھی نکل گئی کوئی دوشیزہ دل کو چھوتی ہوئی یہ میرے ساز جوانی کی پہلی لرزش تھی
یہ ملاقات لوٹے لیتی ہے عشق کی گھات لوٹے لیتی ہے کر لو اخترؔ گواہ تاروں کو آج کی رات لوٹے لیتی ہے
فغان غم سرود انجمیں معلوم ہوتی ہے تپش دل کی بہار یاسمیں معلوم ہوتی ہے مرا کافر مذاق حسن اب تم پوچھتے کیا ہو مجھے اپنی تباہی بھی حسیں معلوم ہوتی ہے
سچ تو یہ ہے جہاں میں میرے بعد نغمے دن رات یونہی برسیں گے اور کیا کیا حسین زمزمے ہائے میرے ذوق نوا کو ترسیں گے
کس قیامت کے لمحے تھے اخترؔ ہائے کیا بے کسی کی گھڑیاں تھیں تھے فلک پر ستارے بکھرے ہوئے گود میں آنسوؤں کی لڑیاں تھیں
پڑھا ہے میں نے فسانوں میں جس طرح اخترؔ مرا شگوفۂ امید کیوں نہیں کھلتا؟ جو عشق پاتے ہیں کثرت سے ہم کتابوں میں وہ واقعات کی دنیا میں کیوں نہیں ملتا
موت کی سی پر سکوں ویرانیاں عرش سے تا فرش ہیں چھائی ہوئی چاندنی پھیلی ہوئی ہے ہر طرف رات کی میت ہے کفنائی ہوئی