Akhtar Ansari

اختر انصاری

طنز پر مائل جذباتی شدت کے لئے معروف

Known for his emotional intensity tinged with irony

اختر انصاری کی غزل

    ترا آسماں ناوکوں کا خزینہ حیات آفرینا حیات آفرینا

    ترا آسماں ناوکوں کا خزینہ حیات آفرینا حیات آفرینا ہماری زمیں لعل و گل کا دفینہ حیات آفرینا حیات آفرینا ہوئے نام اور ننگ سب غرق صہبا مری مے گساری کی ہوگی سزا کیا ترے نام کا ایک جرعہ یہی نا حیات آفرینا حیات آفرینا ترے وعدۂ رزق کی ہے دہائی اگر رزق آزوقۂ روح بھی ہے تو ہم تو ہیں ...

    مزید پڑھیے

    بہار فکر کے جلوے لٹا دیے ہم نے

    بہار فکر کے جلوے لٹا دیے ہم نے جنون عشق کے دریا بہا دیے ہم نے فروغ دانش و برہاں کے شعلے بھڑکا کر توہمات کے خرمن جلا دیے ہم نے گرا کے درک و بصیرت کی بجلیاں پیہم تعصبات کے ٹکڑے اڑا لیے ہم نے بنا کے فکر و تدبر کو خادم انساں مقدرات کے چھکے چھڑا دیے ہم نے شعور نقد کی صحت پسندیوں کی ...

    مزید پڑھیے

    کسی سے لڑائیں نظر اور جھیلیں محبت کے غم اتنی فرصت کہاں

    کسی سے لڑائیں نظر اور جھیلیں محبت کے غم اتنی فرصت کہاں اٹھائیں کسی ماہ پیکر حسینہ کے جور و ستم اتنی فرصت کہاں زمانے کی بے رحمیوں کے تصدق دماغ نشاط و الم ہی نہیں دل اپنا کرے آرزوئے جفا یا امید کرم اتنی فرصت کہاں ڈبو دیں مئے ناب کی مستیوں میں فلاکت کے نکبت کے احساس کو بنا لیں کسی ...

    مزید پڑھیے

    پر کیف ضیائیں ہوتی ہیں پر نور اجالے ہوتے ہیں

    پر کیف ضیائیں ہوتی ہیں پر نور اجالے ہوتے ہیں جب خاک بسر دل ہوتا ہے اور عرش پہ نالے ہوتے ہیں ہنستے ہیں دہان زخم سے ہم گاتے ہیں فغاں کے بربط پر آشفتہ سروں کی دنیا کے سب ڈھنگ نرالے ہوتے ہیں کیا قہر برستا ہے دل پر ساون کی شبوں میں کیا کہئے کچھ درد کی پھواریں ہوتی ہیں کچھ یاس کے جھالے ...

    مزید پڑھیے

    اپنی اجڑی ہوئی دنیا کی کہانی ہوں میں

    اپنی اجڑی ہوئی دنیا کی کہانی ہوں میں ایک بگڑی ہوئی تصویر جوانی ہوں میں آگ بن کر جو کبھی دل میں نہاں رہتا تھا آج دنیا میں اسی غم کی نشانی ہوں میں ہائے کیا قہر ہے مرحوم جوانی کی یاد دل سے کہتی ہے کہ خنجر کی روانی ہوں میں عالم افروز تپش تیرے لیے لایا ہوں اے غم عشق ترا عہد جوانی ہوں ...

    مزید پڑھیے

    سنا کے اپنے عیش تام کی روداد کے ٹکڑے

    سنا کے اپنے عیش تام کی روداد کے ٹکڑے اڑا دوں گا کسی دن چرخ کی بیداد کے ٹکڑے اسیری کو عطا کر کے اسیری کا شرف ہم نے اڑا ڈالے خود اپنی فطرت آزاد کے ٹکڑے کہاں کا آدمی انسان کیسا ماحصل یہ ہے کہیں اشخاص کے پرزے کہیں افراد کے ٹکڑے تباہی کے مزوں سے بھی گئے اب واۓ محرومی سمیٹوں گا کہاں ...

    مزید پڑھیے

    صاف ظاہر ہے نگاہوں سے کہ ہم مرتے ہیں

    صاف ظاہر ہے نگاہوں سے کہ ہم مرتے ہیں منہ سے کہتے ہوئے یہ بات مگر ڈرتے ہیں ایک تصویر محبت ہے جوانی گویا جس میں رنگوں کے عوض خون جگر بھرتے ہیں عشرت رفتہ نے جا کر نہ کیا یاد ہمیں عشرت رفتہ کو ہم یاد کیا کرتے ہیں آسماں سے کبھی دیکھی نہ گئی اپنی خوشی اب یہ حالت ہے کہ ہم ہنستے ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    آفتوں میں گھر گیا ہوں زیست سے بے زار ہوں

    آفتوں میں گھر گیا ہوں زیست سے بے زار ہوں میں کسی رومان غم کا مرکزی کردار ہوں مدتوں کھیلی ہیں مجھ سے غم کی بے درد انگلیاں میں رباب زندگی کا اک شکستہ تار ہوں دوسروں کا درد اخترؔ میرے دل کا درد ہے مبتلائے غم ہے دنیا اور میں غم خوار ہوں

    مزید پڑھیے

    پھول سونگھے جانے کیا یاد آ گیا

    پھول سونگھے جانے کیا یاد آ گیا دل عجب انداز سے لہرا گیا اس سے پوچھے کوئی چاہت کے مزے جس نے چاہا اور جو چاہا گیا ایک لمحہ بن کے عیش جاوداں میری ساری زندگی پر چھا گیا غنچۂ دل ہائے کیسا غنچہ تھا جو کھلا اور کھلتے ہی مرجھا گیا رو رہا ہوں موسم گل دیکھ کر میں سمجھتا تھا مجھے صبر آ ...

    مزید پڑھیے

    غم زدہ ہیں مبتلائے درد ہیں ناشاد ہیں

    غم زدہ ہیں مبتلائے درد ہیں ناشاد ہیں ہم کسی افسانۂ غم ناک کے افراد ہیں گردش افلاک کے ہاتھوں بہت برباد ہیں ہم لب ایام پر اک دکھ بھری فریاد ہیں حافظے پر عشرتوں کے نقش باقی ہیں ابھی تو نے جو صدمے سہے اے دل تجھے بھی یاد ہیں رات بھر کہتے ہیں تارے دل سے روداد باب ان کو میری وہ شباب ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 5