میرے رخ سے سکوں ٹپکتا ہے
میرے رخ سے سکوں ٹپکتا ہے گفتگو سے جنوں ٹپکتا ہے مست ہوں میں مری نظر سے بھی بادۂ لالہ گوں ٹپکتا ہے ہاں کبھی خواب عشق دیکھا تھا اب تک آنکھوں سے خوں ٹپکتا ہے آہ اخترؔ میری ہنسی سے بھی میرا حال زبوں ٹپکتا ہے
طنز پر مائل جذباتی شدت کے لئے معروف
Known for his emotional intensity tinged with irony
میرے رخ سے سکوں ٹپکتا ہے گفتگو سے جنوں ٹپکتا ہے مست ہوں میں مری نظر سے بھی بادۂ لالہ گوں ٹپکتا ہے ہاں کبھی خواب عشق دیکھا تھا اب تک آنکھوں سے خوں ٹپکتا ہے آہ اخترؔ میری ہنسی سے بھی میرا حال زبوں ٹپکتا ہے
سننے والے فسانہ تیرا ہے صرف طرز بیاں ہی میرا ہے یاس کی تیرگی نے گھیرا ہے ہر طرف ہول ناک اندھیرا ہے اس میں کوئی مرا شریک نہیں میرا دکھ آہ صرف میرا ہے چاندنی چاندنی نہیں اخترؔ رات کی گود میں سویرا ہے
جو داغ بن کے تمنا تمام ہو جائے ہمیں تو خون بھی رونا حرام ہو جائے شباب درد مری زندگی کی صبح سہی پیوں شراب یہاں تک کہ شام ہو جائے یہی ہے مصلحت انتہائے راز اخترؔ جہاں میں رسم محبت نہ عام ہو جائے
محبت کرنے والوں کے بہار افروز سینوں میں رہا کرتی ہے شادابی خزاں کے بھی مہینوں میں ضیائے مہر آنکھوں میں ہے توبہ مہ جبینوں کے کہ فطرت نے بھرا ہے حسن خود اپنا حسینوں میں ہوائے تند ہے گرداب ہے پر شور دھارا ہے لیے جاتے ہیں ذوق عافیت سی شے سفینوں میں میں ہنستا ہوں مگر اے دوست اکثر ...
دن مرادوں کے عیش کی راتیں ہائے کیا ہو گئیں وہ برساتیں رات کو باغ میں ملاقاتیں یاد ہیں جیسے خواب کی باتیں حسرتیں سرد آہیں گرم آنسو لائی ہے برشگال سوغاتیں خوار ہیں یوں مرے شباب کے دن جیسے جاڑوں کی چاندنی راتیں دل یہ کہتا ہے کنج راحت ہوں دیکھنا غم نصیب کی باتیں جن کے دم سے شباب ...
چیر کر سینے کو رکھ دے گر نہ پائے غم گسار دل کی باتیں دل ہی سے کوئی بیاں کب تک کرے مبتلائے درد ہونے کی یہ لذت دیکھیے قصۂ غم ہو کسی کا دل مرا دھک دھک کرے سب کی قسمت اک نہ اک دن جاگتی ہے ہاں بجا زندگی کیوں کر گزارے وہ جو اس میں شک کرے
سینہ خوں سے بھرا ہوا میرا اف یہ بد مست مے کدہ میرا نا رسائی پہ ناز ہے جس کو ہائے وہ شوق نا رسا میرا دل غم دیدہ پر خدا کی مار سینہ آہوں سے چھل گیا میرا یاد کے تند و تیز جھونکے سے آج ہر داغ جل اٹھا میرا یاد ماضی عذاب ہے یا رب چھین لے مجھ سے حافظہ میرا منت چرخ سے بری ہوں میں نہ ہوا ...
دل فسردہ میں کچھ سوز و ساز باقی ہے وہ آگ بجھ گئی لیکن گداز باقی ہے نیاز کیش بھی میری طرح نہ ہو کوئی امید مر چکی ذوق نیاز باقی ہے وہ ابتداے محبت کی لذتیں واللہ کہ اب بھی روح میں اک اہتزاز باقی ہے نہ ساز دل ہے اب اخترؔ نہ حسن کی مضراب مگر وہ فطرت نغمہ نواز باقی ہے
شعلے بھڑکاؤ دیکھتے کیا ہو جل اٹھے گھاؤ دیکھتے کیا ہو غرق خوناب ہونے والی ہے درد کی ناؤ دیکھتے کیا ہو دل کسی یاد نے چھوا ہوگا آگے بڑھ جاؤ دیکھتے کیا ہو انجم چرخ فکر آدم کا چل گیا داؤ دیکھتے کیا ہو پیے بیٹھے ہیں زہر دوراں ہم جام اٹھواؤ دیکھتے کیا ہو حسن سے لو نظر کی بھیک ...
غم حیات کہانی ہے قصہ خواں ہوں میں دل ستم زدہ ہے رازداں ہوں میں زیادہ اس سے کوئی آج تک بتا نہ سکا کہ ایک نکتۂ ناقابل بیاں ہوں میں نظر کے سامنے کوندی تھی ایک بجلی سی مجھے بتاؤ خدارا کہ اب کہاں ہوں میں خزاں نے لوٹ لیا گلشن شباب مگر کسی بہار کے ارمان میں جواں ہوں میں یہ کہہ رہی ہے ...