سرور
دیکھ کے تجھ کو یہ آتا ہے کہ لکھوں میں غزل سوچتا ہوں میں یہی پھر کہ ضرورت کیا ہے حسن پہ تیرے یہ رعنائی تری شان جو ہے یہ تری زلفوں میں خم جو ہے سراپے کی شبیہ تیرے نینوں کی کجی جو ہے اداؤں پہ عروج سرخیٔ لب کہ جو مذبح ہے تمناؤں کا تیرا جوبن کہ جو شرمندۂ صد فتنہ ہے سکر یہ تیرے حضوری کا ...