بھائے جو نگاہ کو وہی رنگ اچھا
بھائے جو نگاہ کو وہی رنگ اچھا لائے جو راہ پر وہی ڈھنگ اچھا قرآن و نماز سے اگر دل نہ ہو گرم ہنگامۂ رقص و مطرب و چنگ اچھا
اردو میں طنز و مزاح کے سب سے بڑے شاعر ، الہ آباد میں سیشن جج تھے
The greatest Urdu poet of humour and satire who was a Sessions judge at Allahabad.
بھائے جو نگاہ کو وہی رنگ اچھا لائے جو راہ پر وہی ڈھنگ اچھا قرآن و نماز سے اگر دل نہ ہو گرم ہنگامۂ رقص و مطرب و چنگ اچھا
رکتا نہیں انقلاب چارا کیا ہے حیراں ہیں ملک بشر بچارا کیا ہے تسکیں کے لیے مگر ہے کافی یہ خیال جو کچھ ہے خدا کا ہے ہمارا کیا ہے
وہ لطف اب ہندو مسلماں میں کہاں اغیار ان پر گزرتے ہیں اب خندہ زناں جھگڑا کبھی گائے کا زباں کی کبھی بحث ہے سخت مضر یہ نسخۂ گاؤ زباں
جب تک ہے ہم میں قومی خصلت باقی بے شک پردے کی ہے ضرورت باقی چالیس برس کی بات ہے یہ شاید بعد اس کے رہے گی پھر نہ حجت باقی
الفت نہ ہو شیخ کی تو عزت ہی سہی مرشد نہ بناؤ ان کو دعوت ہی سہی بگڑا ہے جو دل زباں ہی کو روکو رونا جو نہ آئے غم کی صورت ہی سہی
ہر ایک کو نوکری نہیں ملنے کی ہر باغ میں یہ کلی نہیں کھلنے کی کچھ پڑھ کے تو صنعت و زراعت کو دیکھ عزت کے لیے کافی ہے اے دل نیکی
پابند اگرچہ اپنی خواہش کے رہو لائل سبجیکٹ تم برٹش کے رہو قانون سے فائدہ اٹھانا ہے اگر حامی نہ کسی خراب سازش کے رہو
دنیا کرتی ہے آدمی کو برباد افکار سے رہتی ہے طبیعت ناشاد دو چیزیں ہیں بس محافظ دل کی عقبیٰ کا تصور اور اللہ کی یاد
ہے صاف عیاں حرم سرا کا مطلب بیگانوں کے واسطے ہے اک حد ادب ممکن ہو اگر تو اس کو قائم رکھو عزت کے نشاں اور تو مٹ گئے سب
تکمیل میں ان علوم کے ہو مصروف نیچر کی جو طاقتوں کو کر دیں مکشوف لیکن تم سے امید کیا ہو کہ تمہیں عہدہ مطلوب ہے وطن ہے مالوف