اس قوم کو یک دلی کی رغبت ہی نہیں
اس قوم کو یک دلی کی رغبت ہی نہیں جو ایک کرے ادھر طبیعت ہی نہیں اکبر کہتا ہے میل رکھو باہم وہ کہتے ہیں میل کی ضرورت ہی نہیں
اردو میں طنز و مزاح کے سب سے بڑے شاعر ، الہ آباد میں سیشن جج تھے
The greatest Urdu poet of humour and satire who was a Sessions judge at Allahabad.
اس قوم کو یک دلی کی رغبت ہی نہیں جو ایک کرے ادھر طبیعت ہی نہیں اکبر کہتا ہے میل رکھو باہم وہ کہتے ہیں میل کی ضرورت ہی نہیں
علم و حکمت میں ہو اگر خواہش فیم سرکار کی نوکری کو ہرگز نہ کر ایم شادی نہ کر اپنی قبل تحصیل علوم بت ہو کہ پری ہو خواہ وہ ہو کوئی میم
بہتر ہے یہی کہ اب علی گڑھ چلئے رکئے نہ کسی کے واسطے بڑھ چلئے جس فن کا ہو درس ہو جائیے اس میں شریک جو پیش ہے سبق اسے پڑھ چلئے
مسکین گدا ہو یا ہو شاہ ذی جاہ بیماری و موت سے کہاں کس کو پناہ آ ہی جاتا ہے زندگی میں اک وقت کرنا پڑتا ہے سب کو اللہ اللہ
غفلت کی ہنسی سے آہ بھرنا اچھا افعال مضر سے کچھ نہ کرنا اچھا اکبرؔ نے سنا ہے اہل غیر سے یہی جینا ذلت سے ہو تو مرنا اچھا
ہے حرص و ہوس کے فن کی مجھ کو تکمیل غیرت نہیں میری بزم دانش میں دخیل ہیں نفس کی خواہشیں بہت مجھ کو عزیز جب چاہیں کریں خوشی سے مجھ کو وہ ذلیل
جو حسرت دل ہے وہ نکلنے کی نہیں جو بات ہے کام کی وہ چلنے کی نہیں یہ بھی ہے بہت کہ دل سنبھالے رہئے قومی حالت یہاں سنبھلنے کی نہیں
افسوس سفید ہو گئے بال ترے لیکن ہیں سیاہ اب بھی اعمال ترے تو زلف بتاں بنا ہوا ہے اب تک دنیا پہ ہنوز پڑتے ہیں جال ترے
ہمدرد ہوں سب یہ لطف آبادی ہے ہمسایہ بھی ہو شریک تب شادی ہے تسکین ہے جبکہ ہو خدا پر تکیہ قانون بنا سکیں تب آزادی ہے
کہہ دو کہ میں خوش ہوں رکھوں گر آپ کو خوش بجلی چمکاؤں اور کروں بھاپ کو خوش سیکھوں ہر علم و فن مگر فرض یہ ہے ہر حال میں رکھوں اپنے ماں باپ کو خوش