برق کلیسا
رات اس مس سے کلیسا میں ہوا میں دو چار ہائے وہ حسن وہ شوخی وہ نزاکت وہ ابھار زلف پیچاں میں وہ سج دھج کہ بلائیں بھی مرید قدر رعنا میں وہ چم خم کہ قیامت بھی شہید آنکھیں وہ فتنۂ دوراں کہ گنہ گار کریں گال وہ صبح درخشاں کہ ملک پیار کریں گرم تقریر جسے سننے کو شعلہ لپکے دلکش آواز کہ سن کر ...