امید ٹوٹی ہوئی ہے میری جو دل مرا تھا وہ مر چکا ہے
امید ٹوٹی ہوئی ہے میری جو دل مرا تھا وہ مر چکا ہے جو زندگانی کو تلخ کر دے وہ وقت مجھ پر گزر چکا ہے اگرچہ سینے میں سانس بھی ہے نہیں طبیعت میں جان باقی اجل کو ہے دیر اک نظر کی فلک تو کام اپنا کر چکا ہے غریب خانے کی یہ اداسی یہ نا درستی نہیں قدیمی چہل پہل بھی کبھی یہاں تھی کبھی یہ گھر ...