Ahmaq Phaphoondvi

احمق پھپھوندوی

طنز و مزاح کے شاعر

Poet of humour & satire.

احمق پھپھوندوی کی نظم

    نعرۂ حق

    جفا شعار ستم کیش حریت دشمن ڈرا رہا ہے تو آنکھیں یہ کیا دکھا کے مجھے مرے قدم کو ہو جنبش یہ غیر ممکن ہے پیام شوق سے دے درد و ابتلا کے مجھے کوئی مجھے رہ حق سے ہٹا نہیں سکتا اگر یقین نہ ہو دیکھ لے ہٹا کے مجھے زباں پہ کلمۂ حق کے سوا جو حرف آ جائے تو پھونک دے مری غیرت ابھی جلا کے مجھے ہے ...

    مزید پڑھیے

    پیام آزادی

    مقام حق ہے بلا شک مقام آزادی بلند عرش سے بھی کچھ ہے بام آزادی نہ ہو سکے گا کبھی محترم جہاں میں تو جو تیرے دل میں نہیں احترام آزادی سنا رہا ہے تجھے انقلاب دہر جو کچھ سن اور غور سے سن وہ پیام آزادی کہاں تلک یہ تباہی کی زندگی غافل اٹھ اور جلد بنا اک نظام آزادی اٹھ اور ہاتھ میں لے ...

    مزید پڑھیے

    راہ راست

    جو حق پر ہے ایمان کامل ہمارا بنا لے گا کیا زور باطل ہمارا جو ہم متحد ہو کے رہتے وطن میں نہ تھا کوئی مد مقابل ہمارا غلامی کی خو بو مسلط ہے ہم پر دماغ اب ہمارا نہ اب دل ہمارا رہ راست سے گر قدم ڈگمگایا نہ ہوگا گزر تا بہ منزل ہمارا جہاں سینٹ پر سینٹ ہیں اہل عالم وہاں درجہ فصل ہے نل ...

    مزید پڑھیے

    بدل دے

    کب تک وطن آلام و مصائب میں خدایا اب اس کی مصیبت کو مسرت سے بدل دے کب تک یہ تباہ ستم نکبت داد بار اب اس کی نحوست کو سعادت سے بدل دے کب تک یہ شکار الم فاقہ و افلاس اب اس کی فلاکت کو امارت سے بدل دے کب تک یہ گرفتار قتال و جدل و جنگ اب اس کی عداوت کو محبت سے بدل دے کب تک یہ پشیمان بلا نذر ...

    مزید پڑھیے

    اسے جینا نہیں آتا جسے مرنا نہیں آتا

    خدا اس قوم کو عزت نہیں دیتا زمانے میں جسے قومی بزرگوں کا ادب کرنا نہیں آتا یقیناً ہوتی ہے مرنے سے بد تر زندگی اس کی جسے ملک و وطن کے واسطے مرنا نہیں آتا بتوں کا خوف رکھتا ہے اسے لرزہ بہ تن ہر دم خدا کے خوف سے جس شخص کو ڈرنا نہیں آتا جواں مردوں ہی کا ہے کام قطع راہ حریت کہ اس منزل میں ...

    مزید پڑھیے

    بڑھے چلو

    اٹھو اٹھو اٹھو اٹھو کمر کسو کمر کسو سحر سے پہلے چل پڑو کڑی ہے راہ دوستو تھکن کا نام بھی نہ لو بڑھے چلو بڑھے چلو جھجھک نہ دل میں لاؤ تم بس اب قدم اٹھاؤ تم ذرا نہ ڈگمگاؤ تم خدا سے لو لگاؤ تم ملول و مضطرب نہ ہو بڑھے چلو بڑھے چلو اٹھا دیا قدم اگر تو ختم ہے بس اب سفر ہے راہ صاف و بے ...

    مزید پڑھیے

    اچھے دن

    بدلیں پھر رخ اپنا ہوائیں رنج کے بادل پھر چھٹ جائیں خوشیاں اپنا رنگ جمائیں عیش سے ہوں معمور فضائیں راس آئیں یا رب یہ دعائیں ملک کے پھر اچھے دن آئیں پھر گل زار بنیں ویرانے پھر ہوں وہی رنگیں افسانے پھر آ جائیں اگلے زمانے پھر ہوں وہی پر کیف ترانے پھر ہوں وہی دلچسپ صدائیں ملک کے پھر ...

    مزید پڑھیے

    احساس غیرت

    ہم کسی خوف میں ہرگز نہیں آنے والے کہہ دو اب ہم کو ڈرائیں نہ ڈرانے والے ہم میں خود داری و غیرت کی کمی تھی جب تک ڈھا چکے ہم پہ ستم خوب سے ڈھانے والے مٹ لئے ہم میں نہ تھا جب تلک احساس اس کا اب ذرا ہوش کی لیں ہم کو مٹانے والے ہو گئی ہم کو اب اپنی غلطی پر تنبیہ اب ہم اغیار کے دم میں نہیں ...

    مزید پڑھیے

    کھوئے ہوئے زمانے

    کیوں یاد آ رہے ہیں بھولے ہوئے فسانے گزری ہوئی بہاریں کھوئے ہوئے زمانے یا ایک برگ گل کو آنکھیں ترس رہی ہیں یا اپنے دامنوں میں پھولوں کے تھے خزانے یا آج خاک و صرصر ہیں ان کی وجہ زینت یا تھے یہی گلستاں کل تک نگار خانے یا آج خار و خس بھی ہم کو نہیں میسر یا تھے کبھی گلوں کے جھرمٹ میں ...

    مزید پڑھیے

    فسانۂ عبرت

    تعجب میں ہوں دیکھ کر رنگ عالم الٰہی یہ کیا آ گیا ہے زمانا نہ پہلی سی وہ مہر و الفت کی باتیں نہ اگلا سا چاہت کا وہ کارخانہ جدھر دیکھیے بس تعصب، جہالت جہاں جائیے صرف لڑنا لڑانا جو تعلیم دیتا ہے جنگ و جدل کی وہ ہے انتہائی خرد مند و دانا جو تلقین کرتا ہے صلح و صفا کی وہ ہے تیر زجر و جفا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3