زندگی
نہ میں مرا ہوں نہ تم مری ہو ملے تھے جب پہلی بار کتنے کئے تھے وعدے کھائی کتنی تھی ہم نے قسمیں نہیں جئیں گے جو مل نہ پائے مگر نہ ذہنوں میں تھیں ہمارے وہ مردہ رسمیں جو زندہ رکھتی ہیں قید کر کے روایتوں کے اندھے پتھریلے محبسوں میں
شاعر،نغمہ نگار،بانی مدیر سہ ماہی''سویرا''
Poet, lyricist, founding editor of literary magazine quarterly ''Svera''
نہ میں مرا ہوں نہ تم مری ہو ملے تھے جب پہلی بار کتنے کئے تھے وعدے کھائی کتنی تھی ہم نے قسمیں نہیں جئیں گے جو مل نہ پائے مگر نہ ذہنوں میں تھیں ہمارے وہ مردہ رسمیں جو زندہ رکھتی ہیں قید کر کے روایتوں کے اندھے پتھریلے محبسوں میں
ایک عمر ہوتی ہے جس میں کوئی لڑکا ہو یا وہ کوئی لڑکی ہو سوچتے ہیں دونوں ہی ہم ہی حرف اول ہیں اس جہان کہنہ کو اپنی فکر نو سے ہم اک لگن کی لو سے ہم جس طرح کا چاہیں گے ویسا ہی بنا لیں گے پتھروں کو مر مر کے پیکروں میں ڈھالیں گے ایک عمر ہوتی ہے جس میں کوئی لڑکا ہو یا کوئی لڑکی ہو سوچتے ہیں ...
مژۂ خار پہ کس طرح بھلا پائے قرار عارض گل پہ نہ جب قطرۂ شبنم ٹھہرے حادثہ ہے کہ در آئی یہ مسرت کی کرن ورنہ اس دل پہ تھے تاریکیٔ غم کے پہرے درد محرومیٔ جاوید ہماری قسمت راحت وصل و ملاقات کے در بند رہے سال ہا سال روایات کے زندانوں میں کتنے بپھرے ہوئے جذبات نظر بند رہے سم سم سیم سے ...
ہر ایک سانس میں سرگوشیاں ہیں نوحوں کی کسی بھی لب پہ کوئی جاں فزا ترانہ نہیں سمٹ سمٹ گئی انگڑائیوں کی پہنائی حکایت غم دوراں کوئی فسانہ نہیں جو ظلم ہم پہ ہوا ہے اب اس کا ذکر ہی کیا یہاں پہ ہم ہی ستم خوردۂ زمانہ نہیں شکست ساز محبت سے سوزش غم سے ہر ایک عارض گلگوں سے شبنم آلودہ مآل ...
مرے غم کی محرم نہ جانے مرے غم میں کیا دل کشی تم نے پائی کہ اپنا لیا ہے اسے اس طرح جیسے یہ غم تمہارا ہی غم ہو مرے غم میں کیا دل کشی ہے مجھے مجھ سے آگاہ کرنے میں کیسی جھجک یہ پس و پیش کیسا بتاؤ وہ کیا شے ہے مجھ میں کہ جس کی کشش نے تمہیں اپنی خوشیاں مرے غم میں تحلیل کرنے پہ راغب کیا ہے کہ ...
دوست مایوس نہ ہو سلسلے بنتے بگڑتے ہی رہے ہیں اکثر تیری پلکوں پہ یہ اشکوں کے ستارے کیسے تجھ کو غم ہے تری محبوب تجھے مل نہ سکی اور جو زیست تراشی تھی ترے خوابوں نے جب پڑی چوٹ حقائق کی تو وہ ٹوٹ گئی تجھ کو معلوم ہے میں نے بھی محبت کی تھی اور انجام محبت بھی ہے معلوم تجھے تجھ سے پہلے بھی ...
کل جس جگہ یہ چھاؤں گھنی تھی جہاں پہ تم نے مجھ سے وعدہ لیا تھا دوبارہ ملنے کا میں اس جگہ پہ آیا تھا مگر وہاں دھوپ کڑی تھی تم تو نہ تھیں لیکن تم سے ملتی جلتی جھریاں جھریاں چہرے والی کوئی عورت کبھی جو خود بھی کسی سے ملنے اسی جگہ پر آئی ہوگی قہر آلود نگاہوں سے مجھے گھور رہی تھی میں ...
میں جہاں تھا وہاں تیرگی تھی خموشی تھی افسردگی تھی مرے کان نغموں سے محروم تھے سسکیاں میرے ہونٹوں کی میراث تھیں میری آنکھیں کسی سیل پر نور کی منتظر تھیں مری زندگی راکھ کا ڈھیر تھی میں یہاں آ گیا اس طرح خلد میں اس مسلسل اذیت سے کاہش سے بچنے کی خاطر کہ جس سے فقط ایک میں ہی نہیں میرے ...
بہت ضروری بات اک تم سے کرنا تھی لیکن تم کو جلدی بہت تھی جانے کی کہنا یہ تھا ہم تو مشرق مغرب ہیں میرے ہاں تو کوئی ڈرائنگ روم نہیں کوئی بیرا نہ کوئی بٹلر نہ کوئی ماماں شاماں کوئی گراج نہ کوئی کار کوئی ڈرائیور نہ خانساماں ایک ہی کمرہ ہے جو میری سٹڈی بھی ہے بیڈروم بھی ہے اور ڈرائنگ ...
وقت حیران نگاہوں سے مجھے دیکھتا ہے دیکھ کر حال کو شاید اسے ماضی کا خیال آتا ہے وقت جب بھی کسی زرتاب و حسیں ماضی کے گہنائے ہوئے حال سے دو چار ہوا کانپ اٹھا اس کو معلوم نہیں ہے ماضی کس طرح حال کے سانچے میں بگڑ جاتا ہے تو مگر جانتی ہے تلخی زیست دمکتے ہوئے شاداب و جواں چہروں کو کیسے ...