Ahmad Javaid

احمد جاوید

ممتاز معاصر پاکستانی شاعروں میں شامل

One of the most prominent contemporary Pakistani poets

احمد جاوید کی غزل

    نہال وصل نہیں سنگ بار کرنے کو

    نہال وصل نہیں سنگ بار کرنے کو بس ایک پھول ہے کافی بہار کرنے کو کبھی تو اپنے فقیروں کی دل کشائی کر کئی خزانے ہیں تجھ پر نثار کرنے کو یہ ایک لمحے کی دوری بہت ہے میرے لیے تمام عمر ترا انتظار کرنے کو کشش کرے ہے وہ مہتاب دل کو زوروں کی چلا یہ قطرہ بھی قلزم نثار کرنے کو تو پھر یہ دل ...

    مزید پڑھیے

    دنیا سے تن کو ڈھانپ قیامت سے جان کو

    دنیا سے تن کو ڈھانپ قیامت سے جان کو دو چادریں بہت ہیں تری آن بان کو اک میں ہی رہ گیا ہوں کیے سر کو بار دوش کیا پوچھتے ہو بھائی مرے خاندان کو جس دن سے اپنے چاک گریباں کا شور ہے تالے لگا گئے ہیں رفوگر دکان کو فی الحال دل پہ دل تو لیے جا رہے ہو تم اور جو حساب بھول گیا کل کلان کو دل ...

    مزید پڑھیے

    بارش کا ہے ایسا کال

    بارش کا ہے ایسا کال سوکھے پڑے ہیں دل کے تال یہ ہی میرے دکھ سکھ ہیں کپڑا لتا آٹا دال دلی کا تختہ الٹا دل کی جمی ہے مگر چوپال آئندہ کی فکر نہ کر ورنہ دیکھ لے میرا حال آنسو پینا غم کھانا کافی ہے یہ رزق حلال دنیا اور دنیا کی چاہ جھوٹا دریا نقلی جال دل کا گزارا کیسے ہو سارے یار ...

    مزید پڑھیے

    موجود ہیں کتنے ہی تجھ سے بھی حسیں کر کے

    موجود ہیں کتنے ہی تجھ سے بھی حسیں کر کے جھٹلا دیا آنکھوں کو میں دل پہ یقیں کر کے جس چشم سے رندوں میں ہو حق ہے اسی نے تو زاہد کو بھی رکھا ہے محراب نشیں کر کے کیا اس کی لطافت کا احوال بیاں کیجیے جو دل پہ ہوا ظاہر آنکھوں کو نہیں کر کے کچھ کم تھا بلائے جاں پہ چہرہ کہ اوپر سے آنکھیں ...

    مزید پڑھیے

    کتنے میں بنتی ہے مہر ایسی

    کتنے میں بنتی ہے مہر ایسی نا چیز احمد جاوید اویسیؔ میرے سخن میں ہے ایک شے سی آواز اتنی خاموشی ایسی کل عاشقوں کا آتے ہی مذکور کیا کیا نہ بہکے علامہ قیسی اس منطقی پر اپنی نظر ہے من وجہ ایسی من وجہ ویسی یاں کا نہ ہونا بھی وہم ہی ہے بطلان کس کا تحقیق کیسی کھلتی نہیں ہے مجھ پر یہ ...

    مزید پڑھیے

    چاک کرتے ہیں گریباں اس فراوانی سے ہم

    چاک کرتے ہیں گریباں اس فراوانی سے ہم روز خلعت پاتے ہیں دربار عریانی سے ہم منتخب کرتے ہیں میدان شکست اپنے لیے خاک پر گرتے ہیں لیکن اوج سلطانی سے ہم ہم زمین قتل گہ پر چلتے ہیں سینے کے بل جادۂ شمشیر سر کرتے ہیں پیشانی سے ہم ہاں میاں دنیا کی چم خم خوب ہے اپنی جگہ اک ذرا گھبرا گئے ...

    مزید پڑھیے

    آنسو کی طرح دیدۂ پر آب میں رہنا

    آنسو کی طرح دیدۂ پر آب میں رہنا ہر گام مجھے خانۂ سیلاب میں رہنا وہ ابروئے خم دار نظر آئے تو سمجھے آنکھوں کی طرح سایۂ محراب میں رہنا غفلت ہی میں کٹتے ہیں شب و روز ہمارے ہر آن کسی دھیان کسی خواب میں رہنا دن بھر کسی دیوار کے سائے میں تگ و تاز شب جستجوئے چادر مہتاب میں رہنا ویرانۂ ...

    مزید پڑھیے

    آخر الامر تری سمت سفر کرتے ہیں

    آخر الامر تری سمت سفر کرتے ہیں آج اس نخل مسافت کو شجر کرتے ہیں جو ہے آباد تری آئنہ سامانی سے ہم اسی خانۂ حیرت میں بسر کرتے ہیں دل تو وہ پیٹ کا ہلکا ہے کہ بس کچھ نہ کہو اپنی حالت سے کب ایسوں کو خبر کرتے ہیں وصل اور ہجر ہیں دونوں ہی میاں سے بیعت دیکھیے کس پہ عنایت کی نظر کرتے ...

    مزید پڑھیے

    اچھی گزر رہی ہے دل خود کفیل سے

    اچھی گزر رہی ہے دل خود کفیل سے لنگر سے روٹی لیتے ہیں پانی سبیل سے دنیا کا کوئی داغ مرے دل کو کیا لگے مانگا نہ اک درم بھی کبھی اس بخیل سے کیا بوریا نشیں کو ہوس تاج و تخت کی کیا خاک آشنا کو غرض اسپ و فیل سے دل کی طرف سے ہم کبھی غافل نہیں رہے کرتے ہیں پاسبانی شہر اس فصیل سے گہوارۂ ...

    مزید پڑھیے

    آمادہ رکھیں چشم و دل سامان حیرانی کریں

    آمادہ رکھیں چشم و دل سامان حیرانی کریں کیا جانیے کس وقت وہ نظارہ فرمانی کریں بحر بلا ہے موج پر قہر قضا ہے اوج پر ہیں کاہ ساماں مستعد تا نا گریزانی کریں آئی ہے رات ایسی دنی ہے ہر چراغ افسردنی اے دل بیا اے دل بیا کچھ شعلہ سامانی کریں ہاں ہاں دکھائیں گے ضرور ہم وحشت دل کا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3