اس قدر جلوۂ جاناں کو ہیں بے تاب آنکھیں
اس قدر جلوۂ جاناں کو ہیں بے تاب آنکھیں اپنے پردیسی کا جیسے کوئی دستہ دیکھے عشق جاناں میں فنا ہو گئی میری ہستی موت سے کہہ دو کہ آئے مرا مرنا دیکھے
اس قدر جلوۂ جاناں کو ہیں بے تاب آنکھیں اپنے پردیسی کا جیسے کوئی دستہ دیکھے عشق جاناں میں فنا ہو گئی میری ہستی موت سے کہہ دو کہ آئے مرا مرنا دیکھے
جو مزین ہوں ترے حسن کی تابانی سے ڈھونڈھتی رہتی ہیں ایسے ہی مناظر آنکھیں اس کا دل دیدۂ بینا کی طرح ہوتا ہے بند رکھتا ہے جو ہر وقت بہ ظاہر آنکھیں
غموں کا ایک طوفاں دل کے اندر شور کرتا ہے مگر ہم تو سمندر کی طرح خاموش رہتے ہیں صراحی اور پیمانے یہاں کافی نہیں ہوتے یہ وہ بستی ہے افضلؔ جس میں دریا نوش رہتے ہیں
چل رہے ہیں قطار میں سورج اور چراغوں کی رہنمائی ہے رونقیں اس کی کم نہیں ہوتیں تو نے محفل عجب سجائی ہے
ہیں آندھیوں میں بھی روشن چراغ حق افضلؔ اندھیرے کیسے سمجھ پائیں روشنی کا مزاج نماز عشق ادا کرتے ہیں وہ مقتل میں حسین والے سمجھتے ہیں بندگی کا مزاج
یہ کائنات منور ہے تیرے جلووں سے ترے ہی جلووں کی ہر سمت اک نمائش ہے کہاں وہ تاب نظر ہے کہ تجھ کو دیکھ سکوں تری نظر سے تجھے دیکھنے کی خواہش ہے
اس راز سے واقف نہیں افضلؔ یہ زمانہ اشکوں کے سمندر میں جزیرہ ہے غزل کا اس ٹوٹے ہوئے دل کی حقیقت میں بناؤں قبلہ ہے غزل کا یہی کعبہ ہے غزل کا