آسمانوں پہ نظر آتی ہے اس کی سرخی
آسمانوں پہ نظر آتی ہے اس کی سرخی جب کسی ٹوٹے ہوئے دل پہ چھری چلتی ہے پھٹ نہ جائے کہیں قاتل کا کلیجہ افضلؔ رقص کرتے ہوئے بسمل پہ چھری چلتی ہے
آسمانوں پہ نظر آتی ہے اس کی سرخی جب کسی ٹوٹے ہوئے دل پہ چھری چلتی ہے پھٹ نہ جائے کہیں قاتل کا کلیجہ افضلؔ رقص کرتے ہوئے بسمل پہ چھری چلتی ہے
اس کی خوشبو سے معطر ہے مری تنہائی یاد اس کی مجھے تنہا نہیں ہونے دیتی ابن آدم ہوں خطا ہوتی ہے مجھ سے تسکین اس کی رحمت مجھے رسوا نہیں ہونے دیتی
یہ کون آیا ہے گلشن میں تازگی لے کر چمن میں پھول بہاروں سے بات کرتے ہیں وہ کرنے لگتے ہیں تعریف تیری محفل کی جب آسماں کے نظاروں سے بات کرتے ہیں
ہمارے چاروں طرف ہے ہجوم کانٹوں کا یہاں پہ پہنچے ہیں پھولوں کی چاہ کرتے ہوئے لباس مل گیا افضلؔ وہیں طہارت کا ترا خیال جو آیا گناہ کرتے ہوئے
ہماری قوت پرواز کا ثانی نہیں کوئی مگر پرواز پر اپنی کہاں ہم ناز کرتے ہیں عقابی حوصلہ رکھتے ہیں ہم اونچی اڑانوں میں ہماری رہنمائی میں سبھی پرواز کرتے ہیں
لب ہمارے خموش رہتے ہیں اور کرتی ہیں گفتگو آنکھیں پھیل جائے جہاں میں تاریکی بند کر لے کبھی جو تو آنکھیں
دشت میں تپتے غباروں سے تیمم کر کے عشق کرتا ہے جو سجدے تو غزل ہوتی ہے یوں ہی لفظوں میں حرارت نہیں آتی افضلؔ جب قلم خون میں ڈوبے تو غزل ہوتی ہے
شعر کی میں ردیف بن جاؤں تو اگر اس کا قافیہ ہو جا خوف دنیا کا ہے تو چھوڑ مجھے یا تو پھر میرا آئنہ ہو جا
دکھا نہ خواب حسیں اے نصیب رہنے دے میں اک غریب ہوں مجھ کو غریب رہنے دے مریض عشق ہوں مجھ کو دوا سے کیا مطلب نہ کر علاج مرا اے طبیب رہنے دے
در بدر بھٹکا کریں گے راستہ ڈھونڈیں گے لوگ تو نہیں ہوگا تو تیرا نقش پا ڈھونڈیں گے لوگ روشنی کے واسطے کوزہ گروں کے شہر میں ہم نہیں ہوں گے تو مٹی کا دیا ڈھونڈیں گے لوگ