میں زباں رکھتے ہوئے خاموش ہوں
میں زباں رکھتے ہوئے خاموش ہوں مجھ کو کیسی بے زبانی دے گیا میں ابھی ننھا سا پودا تھا مگر مجھ کو فکر باغبانی دے گیا
میں زباں رکھتے ہوئے خاموش ہوں مجھ کو کیسی بے زبانی دے گیا میں ابھی ننھا سا پودا تھا مگر مجھ کو فکر باغبانی دے گیا
تو ہے ظاہر پرست اے دنیا مہکے گیسو کا درد کیا جانے سب تو جھنکار کے ہیں متوالے کوئی گھنگھرو کا درد کیا جانے
جنہیں ضمیر کی دولت خدا نے بخشی ہے انہیں خرید نہ پائیں گے سلطنت والے ہر ایک شخص اٹھائے ہے ہاتھ میں پتھر کہاں قیام کریں آئنوں کے متوالے
دیار عشق میں محرومیوں کے ہیں چرچے دیار حسن میں مغرور سب نظارے ہیں انہیں سمجھنے کی کوشش تو کیجیے افضلؔ وہ دل فریب نگاہوں کے جو اشارے ہیں
جو مہکتا ہے بوئے اردو سے اس گلستاں کا عندلیب ہوں میں ہے مرے پاس درد کی دولت اے زمانہ کہاں غریب ہوں میں
کیا کبھی اس سے ملاقات ہوئی ہے تیری نور سے جس کے اجالا ہے تری آنکھوں میں آئنہ دیکھ کے حیران تجھے ہوتا ہے عکس کس کا ہے جو رہتا ہے تری آنکھوں میں
اب بھی راتیں مری مہکتی ہیں ایک دن خواب میں وہ آتا تھا چلتے چلتے ہوئی کوئی آہٹ مڑ کے دیکھا تو میرا سایا تھا
ہوتا تھا جنہیں دیکھ کے مسرور میں افضلؔ آنکھوں میں مری اب وہی منظر نہیں آتے حیران میں ہوتا ہوں یہی سوچ کے اکثر کیا بات ہے اب چھت پہ کبوتر نہیں آتے
ہجر کے ماروں کی تقدیر بھی کیا ہوتی ہے دیکھ سکتے ہیں مگر بات نہیں ہو پاتی ان کناروں سے کبھی پوچھو جدائی کیا ہے عمر بھر جن کی ملاقات نہیں ہو پاتی
میں ہوں بیگانۂ جہاں افضلؔ کیوں کرے کوئی انتظار مرا بد نما خود کو میں سمجھتا تھا آئنہ ہی تھا داغدار مرا