Afzal Allahabadi

افضل الہ آبادی

افضل الہ آبادی کی غزل

    اپنی تنہائیوں کے غار میں ہوں

    اپنی تنہائیوں کے غار میں ہوں ایسا لگتا ہے میں مزار میں ہوں تو نے پوچھا کبھی نہ حال مرا مدتوں سے ترے دیار میں ہوں تیری خوشبو ہے میری سانسوں میں جب سے میں تیری رہ گزار میں ہوں مجھ پہ اپنا ہے اختیار کہاں میں تو بس تیرے اختیار میں ہوں مجھ کو منزل سے آشنا کر دے میں تری راہ کے غبار ...

    مزید پڑھیے

    لٹا رہا ہوں میں لعل و گہر اندھیرے میں

    لٹا رہا ہوں میں لعل و گہر اندھیرے میں تلاش کرتی ہے کس کو نظر اندھیرے میں وہ جس کی راہ میں میں نے دیئے جلائے تھے گیا وہ شخص مجھے چھوڑ کر اندھیرے میں چراغ کون اٹھا لے گیا مرے گھر سے سسک رہے ہیں مرے بام و در اندھیرے میں تھا تیرگی کے جنازے پہ ایک حشر بپا جو اس کے آنے سے پھیلی خبر ...

    مزید پڑھیے

    دوائے درد غم و اضطراب کیا دیتا

    دوائے درد غم و اضطراب کیا دیتا وہ میری آنکھوں کو رنگین خواب کیا دیتا تھی میری آنکھوں کی قسمت میں تشنگی لکھی وہ اپنی دید کی مجھ کو شراب کیا دیتا کیا سوال جو میں نے وفا کے قاتل سے زباں پہ قفل لگا تھا جواب کیا دیتا میں چاہتا تھا کہ اس کو گلاب پیش کروں وہ خود گلاب تھا اس کو گلاب کیا ...

    مزید پڑھیے

    تم ہمارے ہو ہم تمہارے ہیں

    تم ہمارے ہو ہم تمہارے ہیں جیسے دریا کے دو کنارے ہیں روٹھے روٹھے سے سب نظارے ہیں اک ہمیں ہیں جو غم کے مارے ہیں وہ ملاتے ہیں نظر ہم سے اور کہتے ہیں ہم تمہارے ہیں حوصلہ ہے ہمارے دل میں ابھی ہم کہاں زندگی سے ہارے ہیں کیا بتائیں کہ تیری فرقت میں کس طرح ہم نے دن گزارے ہیں اس کو میری ...

    مزید پڑھیے

    غموں کی دھوپ میں ملتے ہیں سائباں بن کر

    غموں کی دھوپ میں ملتے ہیں سائباں بن کر زمیں پہ رہتے ہیں کچھ لوگ آسماں بن کر اڑے ہیں جو ترے قدموں سے خاک کے ذرے چمک رہے ہیں فلک پر وہ کہکشاں بن کر جنہیں نصیب ہوئی ہے ترے بدن کی نسیم مہک رہے ہیں زمیں پر وہ گلستاں بن کر میں اضطراب کے عالم میں رقص کرتا رہا کبھی غبار کی صورت کبھی ...

    مزید پڑھیے

    تیرے جلووں کو روبرو کر کے

    تیرے جلووں کو روبرو کر کے تجھ سے ملتے ہیں ہم وضو کر کے تیرے کوچے سے لوٹ آئے ہم اپنی آنکھیں لہو لہو کر کے چاک دامن ہے چاک رہنے دے کیا کرے گا اسے رفو کر کے تیرے لہجے میں کیسا جادو ہے ہم بھی دیکھیں گے گفتگو کر کے اپنی دنیا لٹائے بیٹھا ہوں یہ ملا تیری جستجو کر کے کھو دیا ہے چراغ ...

    مزید پڑھیے

    غزل کا حسن ہے اور گیت کا شباب ہے وہ

    غزل کا حسن ہے اور گیت کا شباب ہے وہ نشہ ہے جس میں سخن کا وہی شراب ہے وہ اسے نہ دیکھ مہکتا ہوا گلاب ہے وہ نہ جانے کتنی نگاہوں کا انتخاب ہے وہ مثال مل نہ سکی کائنات میں اس کی جواب اس کا نہیں کوئی لا جواب ہے وہ مری ان آنکھوں کو تعبیر مل نہیں پاتی جسے میں دیکھتا رہتا ہوں ایسا خواب ہے ...

    مزید پڑھیے

    مری دیوانگی کی حد نہ پوچھو تم کہاں تک ہے

    مری دیوانگی کی حد نہ پوچھو تم کہاں تک ہے زمیں پر ہوں مگر میری رسائی لا مکاں تک ہے ترا جلوہ تو ایسے عام ہے سارے زمانے میں وہیں تک دیکھ سکتا ہے نظر جس کی جہاں تک ہے کسی کو کیا خبر احساس ہے لیکن مرے دل کو کہ اس کے پیار کی برسات میرے دشت جاں تک ہے ذرا برق ستم سے پوچھ لیتا کاش کوئی ...

    مزید پڑھیے

    کر دیا خود کو سمندر کے حوالے ہم نے

    کر دیا خود کو سمندر کے حوالے ہم نے تب کہیں گوہر نایاب نکالے ہم نے زندگی نام ہے چلنے کا تو چلتے ہی رہے رک کے دیکھے نہ کبھی پاؤں کے چھالے ہم نے جب سے ہم ہو گئے درویش ترے کوچے کے تب سے توڑے نہیں سونے کے نوالے ہم نے تیری چاہت سی نہیں دیکھی کسی کی چاہت ویسے دیکھے ہیں بہت چاہنے والے ہم ...

    مزید پڑھیے

    یہ حقیقت ہے وہ کمزور ہوا کرتی ہیں

    یہ حقیقت ہے وہ کمزور ہوا کرتی ہیں اپنی تقدیر کا قومیں جو گلہ کرتی ہیں ریت پر جب بھی بناتا ہے گھروندا کوئی سر پھری موجیں اسے دیکھ لیا کرتی ہیں میں گلستاں کی حفاظت کی دعا کرتا ہوں بجلیاں میرے نشیمن پہ گرا کرتی ہیں جانے کیا وصف نظر آتا ہے مجھ میں ان کو تتلیاں میرے تعاقب میں رہا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2